خودسوزی ‘ آخر کب تک ؟
رواں ماہ کی 8 تاریخ کو دنیا بھرمیں خواتین کا عالمی دن نہایت اہتمام سے منایا گیا۔ اسی ماہ میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی 18سالہ آمنہ نے انصاف نہ ملنے پر خود کو شعلوں کے حوالے کردیا۔ 5جنوری کو زیادتی کا نشانہ بننے والی آمنہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پولیس نے تفتیش کے بعد اس کے گناہگاروں کو بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا ہے تو اس نے تھانے پہنچ کر خود کو آگ لگالی ‘لڑکی کو تشویشناک حالت میں نشتر اسپتال ملتان منتقل کیا گیا‘ جہاں وہ صبح زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔اسی طرح سے 2 فروری کو چینوٹ کے علاقے موضع کلس کے کھیتوں میں کام کے دوران 22 سالہ محنت کش لڑکی کو تین بااثر زمینداروں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ عدالتی حکم پر اس کا میڈیکل کرانے پر زیادتی ثابت ہوئی ‘ عدالتی حکم پر ملزمان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کئے گئے لیکن پولیس نے ان بااثر ملزمان کو گرفتار نہ کیا۔ پولیس کے اس رویئے کے خلاف لڑکی نے عدالت کی سامنے خودسوزی کی کوشش کی
تاہم وکلاء نے آگ بجھا کر اس کی جان بچالی۔
میں نے زیر نظر سطور میں صرف دو واقعات کا تذکرہ کیا ہے جب کہ اخبارات اس طرح کے سانحوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وقوعہ میں سے کئی تو رپورٹ ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر کاغذوں پر نہیں لائے جاتے ‘ جو منظر عام پر آجاتے ہیں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ معاشرہ جتنی بھی ترقی کرجائے خواتین کی صورتحال بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔پنجاب ہو یا سندھ ملک کے ہر حصے میں جنسی جرائم میں تیزی سے تشویشناک اضافہ ہورہا ہے ۔ اس لپیٹ میں 3 سالہ بچی سے لے کر ضعیف العمر خواتین تک آجاتی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ مجرمان آزادی سے دندناتے پھرتے ہیں۔جس گھر پر یہ آفت آتی ہے صرف وہ اس تکلیف سے گزرتا ہے اور یہ تکلیف ساری عمر کی ہوتی ہے شاید اسی لئے اب ایسی بچیاں
خودسوزی کو اپنے لئے زیادہ بہتر راستہ سمجھتی ہیں۔
مظفر گڑھ میں ہونے والا واقعہ 2002 میں مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کی یاد تازہ کرتا ہے اوراجتماعی زیادتی کے یہ واقعات ایک دوسرے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ چلیں دیہات میں ہونے والے ایسے ظالمانہ فیصلے اور خواتین کی عصمت دری تو ان دیہاتیوں کی ظالمانہ اور جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے لیکن بڑے شہروں میں خواتین کو متعدد طریقوں سے ہراساں کرنے والوں کو کیا کہا جائے جو ایک سڑک پر چلتی عورت‘ اسکول یا کالج جاتی طالبہ‘ دفتر میں کام کرنے والی لڑکی یا بازار میں شاپنگ کرتی خاتون کو اپنی غلیظ نظروں‘ واہیات جملوں اور وحشیانہ انداز سے ہراساں کرتے ہیں۔ کیا ان مرد نما بھیڑیوں کی نظر میں عورت صرف ایک شکار کے قابل خرگوش ہے جسے وہ اپنی نظروں سے ہی زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی ماں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسے ہی کسی جنسی بھیڑیے کی
نظروں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ عورت چاہے کسی بھی مقام ‘ جگہ یا ملک میں ہو‘ اسے ان جنسی درندوں سے نجات نہیں مل سکتی ‘البتہ اس کی سطح مختلف ہوسکتی ہیں۔ معاشرے میں روا ہر قسم کی ہوس‘ بدلے‘ زیادتی اور کوتاہی کا خسارہ عورت کو ہی بھگتنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر عورت کو کئی صدیوں سے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن آخر کب تک ؟
وہ پاکستان جہاں عورت دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی‘ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ نے بھی میدان سیاست میں خوب نام کمایا اور رعنا لیاقت علی گورنر سندھ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائزکیا گیا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا‘ لاالہ الا محمد رسول اللہ“ کے نعرے پر حاصل کئے گئے ۔اس ملک میں صنف نازک اپنے بنیادی حقوق کے معاملے میں ہمیشہ نظر انداز کی گئی ھے۔ اکثر دیہاتی نظام میں بسنے والی عورت آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتاہے۔ ونی اور کاروکاری جیسی قبیح رسوم‘ گینگ ریپ زنا بالجبر‘ جبری مشقت‘ مارپیٹ‘ بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی ‘عزت کے نام پر قتل‘ وراثت سے محرومی اور سوابتیس روپے حق مہر جیسے غیر عادلانہ ‘ غیر منصفانہ ‘ ظالمانہ اقدامات اور جاہلانہ رسم و رواج سے اسلام اور پاکستان کی علمی سطح پر جنگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
اس وقت ضرورت ہے تو بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے ‘عورتوں میں علمی شعور بیدار کرنے اور انہیں معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ۔ سماج میں بڑھتی ہوئی بے گانگی اور اجنبیت کا ایک سبب عورت کے لیے منفی سوچ ہے جسے ختم کرنے اور عورت کو اس کے مرتبہ کے مطابق عزت دینے ہی سے عورتوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتی میں کمی کی اُمید کی جاسکتی ہے۔