Monday, 3 March 2014

طالبان یا پھر کوئی اور


ابھی کچھ ہی دن پہلے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار میڈیا پر خم ٹھوک کر یہ دعوے داری کررہے تھے کہ اسلام آباد بالکل محفوظ ہے ۔ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد محفوظ شہر ہے جہاں خطرے کا امکان کم ہوا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد کو درپیش تمام تر دہشت گردانہ خطرات کے سدباب کے لئے اپنی بہترین کوشش کی ہے اور اس کے نتیجہ میں جون 2013 ء”صرف ایک دہشت گردانہ واقعہ“ ہوا ہے اور وہ بھی دارالحکومت کے مضافات میں۔ وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ میں اعادہ کیا تھا کہ دارالحکومت ممنوعہ گروپوں جیسے القاعدہ ،تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے ”سلیپر سلس“ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت جوکھم میں ہے لیکن وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد محفوظ ہے اور سارے ملک کی سلامتی حکومت کی کوشش ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر حساس اداروں نے سیکیورٹی الرٹ جاری کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں ۔ابھی ان باتوں کی بازگشت جاری ہی تھی کہ آج صبح اسلام آباد ایف 8کچہری میں دو خود کش حملے کی خبر ہر چینل پر وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کا منہ چڑاتے نظر آرہی تھی۔خود کش حملے میں سیشن جج اور 4 وکلاءسمیت 12 افراد جاں بحق‘ جب کہ 30 افراد زخمی ہوئے ہیں‘ جن میں کئی کی حالت نازک ہے‘ زخمی ہونے والوں میں وکلائ‘ سائلین اور راہ گیر بھی شامل ہیں‘ تاہم ابھی تک کسی گروپ کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلع کچہری میں خود کش حملے اور فائرنگ کے واقعے پر ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونےوالے ہنگامی اجلاس میں اسلام آباد ضلع کچہری واقعے کے محرکات اور آئندہ کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے گا‘وزیراعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے عوام کی حفاظت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھاجسے ضلع کچہری میں پیش آنے والے واقعے نے غلط قرار دے دیا ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کے بارے میں تیسری قوت کارفرما ہے‘ دھماکے کون کررہا ہے طالبان بھی اس کانوٹس لیں۔

 غور طلب بات یہ ہے کہ خود کش حملوں کا واقعہ ایک ایسے لمحے میں سامنے آیا ہے‘جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور اس کے ماتحت ذیلی دہشت گرد تنظیموں نے بھی جنگ بندی پر غیر مشروط آمادگی ظاہر کی۔اب اگر ان خودکش حملوں کے پیچھے حسب وعدہ طالبان نہیں ہیں تو پھر کون ہے جو اتنے منظم اور بے خوف انداز میں پاکستان کے دل پر حملہ کرگیا۔

”پاکستان دہشت گرد ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں ہے “یہ روایتی جملہ نہیں بلکہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے جس پر بیان بازی کا شوق پورا کرنا انتہائی غلط ہے۔ صرف بیان داغنا کافی نہیں بلکہ ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتہائی عملی اقدامات کرنے چاہئے بصورت دیگر نئے اور پرانے طالبان سمیت‘ تیسری ‘ چوتھی اور پانچوں ملک دشمن قوت سامنے آتی رہے گی کیوں کہ ہم وطن عزیز کی دفاع کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے نظر نہیں آرہے




No comments:

Post a Comment