Friday, 10 June 2016

اکیلی عورت بوجھ  کیوں ؟
شازیہ انوار

”کچھ دن تو انتظار کیا ہوتا‘ ادھر شوہر نے آنکھیں بند کی نہیں کہ محترمہ ہاتھوں پر مہندی رچا بیٹھیں۔“
”ہاں بھائی‘ زمانہ ہی سیاہ ہے ‘ ہمارے زمانے میں تو بیوہ عورتیں گھر سے نکلنے میں بھی جھجھکتی تھیں لیکن آج تو جیسے سب ہی کچھ بدل چکا ہے ۔ “
یہ وہ گفتگو تھی جو ایک محفل میں دو خواتین نہایت اہتمام سے کررہی تھیں اور کئی خواتین اردگرد بیٹھی ان کی باتوں کی تائید میں سر ہلاتی نظر آرہی تھیں۔ جب میں ان میں سے دو ایک ایسی خواتین کو ذاتی طور پر جانتی ہوں جن کی بیوہ بہن یا بیٹی بیوگی کا عذاب جھیل رہی ہیں لیکن کسی ایک بیوہ عورت کے لئے وہ جس بے دردی سے اپنی رائے کا اظہار کررہی تھیں اس پر میں سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کرسکی۔
ہمارا معاشرہ ویسے تو کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن کچھ سماجی مسائل ایسے ہیں جن کو حل کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنی دقیانوسی سوچ اور گلی سڑی اقدار کی لکیر کو پیٹنے سے باز نہیں آتے ۔ بہت سے لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی روش کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ ان گوناں گو مسائل میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا ‘ عورتوں کی طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح اور بیوگی بھی شامل ہیں۔
اس وقت ہمارے ہاں ایسی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو شادی کے بعد ناچاقی کی بناءپر خلع یا طلاق لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر قدرت ان کے سروں سے شوہروں کا سایہ چھین لیتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو شادی کی عمرسے تجاوز کرچکی ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 30سے 45سال کی 60لاکھ سے زائد بیوائیںہیں۔ دوسری طرف گیلپ سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں طلاق کی شرح 48فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں بیواﺅں اور طلاق یافتہ عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ادھر پاکستان کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر کراچی میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رُجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘ فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں‘ ایک ہزار خواتین خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جب کہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں‘ خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی‘ جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میںدس سے زائد خواتین خلع کے لئے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج‘ جبری شادی کرنے والی خواتین کی ہے‘ دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کر رہی ہیں۔
بیوہ ہونا کسی کے اختیار میں نہیں اور اسی طرح خلع یا طلاق یافتہ ہونے میں بھی ضروری نہیں کہ عورت ہی ذمہ دار ہولیکن معاشرہ ایسی خواتین کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ مردانہ سماج ایسی عورتوں سے دوستی رکھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے لیکن ان عورتوں سے نکاح ان کی لغت میں نہیں ہے۔ایسی خواتین جن کے والدین نہ ہوں اور انہیں کسی بھی صورت میں تنہا زندگی گزارنی پڑے‘ ان کے لئے گھروں سے باہر نکلنا باعث ملامت بن کر رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں جہاں جوان اور کنواری لڑکیوں کی شادیوںکے لئے جو معیارات قائم ہیں وہاں بیوہ ‘ خلع یا طلاق یافتہ کے ساتھ شادی بے حد پیچیدہ معاملہ نظر آتا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرنے کے لئے تیار ہوبھی جائے تو اسے اپنے گھر‘ خاندان اورمعاشرے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اکیلی خواتین نہ تو اپنے کسی عزیز کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں اور نہ ہی کسی عزیز کو اپنے ہاں بلا سکتی ہیں‘ لوگ ان کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اکیلی عورت کے ساتھ غیروں کے سلوک کی تو بات ہی کیا اپنوں کا رویہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔بہن بھائی یہاں تک کہ ماں باپ بھی اسے بوجھ سمجھنے لگتے ہیں ایسے میں اگر ان کے ساتھ بچے ہوں تو مرے پہ سو دُرے کے مصداق اس کی زندگی میں مزید زہر گھل جاتا ہے اور آخرکار اسے فکر معاش اور اپنے بچوں کو عزت دار زندگی فراہم کرنے کی غرض سے ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں بچوں کی دیکھ بھال کے نام پر بھی اسے گاہے بگاہے بھابھیوں اوربہنوں کی جانب سے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے خواتین کی اکثریت شوہر کی مار‘ بے عزتی اور زیادتیوں کو برداشت کرلیتی ہیں ‘تاہم بیواﺅں کے پاس کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بیوہ عورت کے ساتھ زیادتی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہے کہ اس کے سسرال والے اس سے تقریباً قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ بیوہ ہونے بعد شوہر کی جائیداد میں سے سسرال والے اکثر حصہ نہیں دیتے اور اگر بیوہ عدالت سے رجوع کرے تو وہاں پر بھی اسے اتنے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا اکیلی عورت کے بس کی بات نہیں جب کہ اسلام بیوہ عورت کو اپنے سابقہ خاوند کے ترکہ میں سے حصہ دار قرار دیتا ہے خواہ وہ دوسری شادی کرے یا نہ کرے۔
ہمارے معاشرے میں مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ اس کے فیصلے کو سراہتے ہیںکیوں کہ ان کے نزدیک گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے دوسری شادی ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ عورت دوسری شادی کرلے تو اس پرالزامات کی بارش کردی جاتی ہے جو ایک انتہائی قبیح عمل ہے۔ ایک بیوہ عورت کو مرد کی نسبت شادی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ وہ معاشرتی اور معاشی طور پر مرد سے کمزور ہے اس کے لئے بچے پالنا اور معاشرے میں تنہا رہنا زیادہ مشکل ہے لیکن ہمارے ہاں مرد تو مرد خواتین بھی تنقیدسے باز نہیں آتیں ۔
ہم مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اسلامی روایات پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے لیکن کم از کم شادی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم شادی بیاہ کے معاملے میں غیر مسلموں سے بدتر ہیں جب کہ ہمارے پیارے رسول ا نے شادی کے حوالے سے جو بہترین مثالیں قائم کی ہیں جن پر عمل پیراءہونے سے بے شمار مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔




رمضان 

ماہ صیام اپنی رحمتوں کے ساتھ جلوہ گر ہ ہے۔ مہنگائی کے اس زمانے میں رمضان متوسط طبقے کےلئے فکر و پریشانیاں بھی اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ رمضان میں اپنے دسترخوان کو وسیع کرے لیکن مہنگائی اس جائز خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاﺅٹ نظر آتی ہے‘ ایسے میں رمضان کی آمد سے قبل اگر کچھ منصوبہ بندی کرلی جائے تو رمضان المبارک میں کچھ مسائل سے تو بچا ہی جاسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر بازار سے سموسے اور رولز ‘وغیرہ خریدنے کے بجائے گھر پر تیار کریں۔یہ نہ صرف صحت بلکہ آپ کی جیب کےلئے بھی مفید ہوگا کیونکہ افطار کے دسترخوان کا لازمی حصہ ّ سمجھے جانے والے سموسے اور رولز بازار میں قدرے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے تیزابی مشروبات کے بجائے پھلوں کے جوسزصحت اور جیب دونوں کےلئے مفیدہوسکتے ہیں۔پھلوں کی خریداری افطار کے بعد کریں تاکہ اگلے دن کے دسترخوان پر بلاتکلف پھل سجائے جاسکیں۔اگر افطاری شاندار بنائی جارہی ہو توکھانا سادہ اور سحری تک کا حساب رکھ کر بنائیں۔سحری میں بالخصوص کوئی اہتمام کرنے سے گریز کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ تھوڑی سی سوچ سمجھ اور صبر سے کام لینا بہت سی مشکلات سے محفوظ رکھنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم میں سے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہوئے اپنے من پسند کھانوں کیلئے اصرار کرتی ہے لیکن یہ مہینہ بھو ُکا پیاسا رہ کر دوسروں کی بھوک اور پیاس کو محسوس کرنے کا نام ہے ‘ لہٰذا جہاں اس مہینے کی روح کے عین مطابق خشو ع و خضوع سے عبادات کا سلسلہ دراز کیا جاتا ہے‘ وہیں جہاں تک ممکن ہو اپنے دسترخوانوں کو مستحقین کےلئے دراز کریں تاکہ آپ کی طرح دوسرے بھی اس مہینے کی برکتوں سے فیضاب ہوسکیں اور آپ کے اس عمل کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اور برکت آپ کے اُوپر سایہ فگن رہے۔

Wednesday, 18 May 2016

اُڈاری پر تنقید کی آخر کیا وجہ ہے ؟

اُڈاری پر تنقید کی آخر کیا وجہ ہے ؟

ہم نیٹ ورک کے ڈرامہ سیریل اُڈاری کے حوالے سے پیمرا کی اظہار وجوہ کے نوٹس کا اجراءکم از کم میرے لئے انتہائی حیران کن ہے ۔ اس سیریل کے انفرادی اور حساس موضوع کے پیش نظر اُڈاری کے ون لائنر کے آنے سے لے کر اس کی پریس کانفرنس تک ہر قدم میری نگاہ میں رہا۔ پریس کانفرنس میں ڈرامے کی جھلکیاں دیکھ کر کم از کم میرے تو رونگھٹے کھڑے ہوئے کیوں کہ میں بھی ایسی کچھ بچیوں کو جانتی ہوں جو اس صورتحال سے گزر یں ۔ پریس کانفرنس میں احسن خان نے حاضرین کو بتایا کہ ان کے اس سیریل میں کام کرنے کا سبب بنی اس کے گھر کی نوکرانی جس کی بیٹی اس عذاب کا شکار تھی۔
سب سے پہلے تو کچھ اُڈاری کے بارے میں جو پروڈیوسرمومنہ دُرید (ایم ڈی پروڈکشنز)اور کشف فاو ¿نڈیشن کی مشترکہ کاوش ہے اورکینڈین حکومت کے تعاون سے پیش کیا جارہا ہے۔اُڈاری ایک انتہائی سنجیدہ ‘ تکلیف دہ اور حساس موضوع پر بنائی جانے والی ڈرامہ سیریل ہے جس کی بنیاد معصوم بچوں سے زیادتی ہے اور اسے گانے بجانے والوں کی مشکلات کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا ہے۔ اُڈاری معروف ناول نگار فرحت اشتیاق کی تحریر ہے جس کے ہدایت کار احتشام الدین ہیں۔”ا ±ڈاری “کے نمایاں ستاروں میں بشریٰ انصاری‘ سمیہ ممتاز ‘ لیلیٰ زبیری ‘ احسن خان ‘ فرحان سعید اور عروہ حسین شامل ہیں یعنی اس سیریل سے متعلق تمام افراد انتہائی ذمہ دار اور معاشرے میں اہم مقام رکھنے والے افراد ہیں جو یقینا عام لوگوں سے زیادہ باشعور بھی ہیں۔
اُڈاری کے حوالے سے کسی نے لکھا کہ اس ڈرامے کے ذریعے بے حیائی عام کی جارہی ہے توکسی نے تحریر کیا کہ ریپ سین کو کھلے بندوں دکھایا جارہا ہے ۔ بعض نے اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز جملے تحریر کئے جو تنقید برائے تنقید سے زیادہ کچھ اور نہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُڈاری میں معاشرے کے اُس مکروہ ترین چہرے کی عکاسی کی گئی ہے جو ہر دوسرے گھر میں موجود اپنے ہی لوگوں کی عزتوں کو مجروح کررہے ہیں۔ پڑھنے والے تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں بھی کوئی نہ کوئی ایسا نام یاد آہی جائے گا جو اڈاری کے ”امتیاز“کی یاد دلا جائے گا۔
اولاً تو یہ کہ ہم ٹی وی کو شہرت کے حصول کیلئے کسی بھی قسم کے منفی کام انجام دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘اس کے ڈراموں کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت ازطشت از بام ہے۔دوئم یہ ہے کہ جو مسئلہ اُڈاری کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس وقت اس کی حساسیت کو محسوس کرنا نہایت ضروری ہے۔چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں‘ ہم انہیں پڑھتے ہیں‘ افسوس کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں ۔اس کے بعد جب کوئی دوسرا واقعہ سامنے آتا ہے تو پھر افسوس کے کلمات کی ادائیگی ہوکر ہوا کے ساتھ اُڑ جاتی ہے۔اس حوالے سے کسی بھی پلیٹ فارم سے کوئی بھی عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا ۔معاشرے کی اسی بے حسی کی وجہ سے جاوید اقبال جیسے لوگ 100بچوں کے قاتل بن جاتے ہیں۔تیسری اور اہم ترین بات یہ کہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے والے پیمرا نے کیا کبھی کیبل پر چلنے والی فلمیں نہیں دیکھیں؟ حقیقی زندگی پر عکس بند کئے جانے والے بے شمار اور انتہائی ڈراموں پر کبھی غور کیا ہے جس میں ایسے ایسے مناظر پیش کئے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ یقینا چینل بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔سینما پر لگائی جانے والے بے شمار فلمیں ایسی ہیں جن کا موضوع اور آزادانہ عکس بندی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ان میں ”دوستانہ “جیسی انتہائی آزاد موضوع کی فلم بھی شامل ہے۔اور جہاں تک بات آزاد موضوع کی ہے جسے لوگ فحاشی سے تعبیر کررہے ہیں تو پھر بچوں کیلئے مخصوص چینلوں کو دیکھ لیجئے جہاں سے بچوں کو قبل از وقت باشعور بنانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کارٹونز اور دیگر پروگرامز نشر کئے جارہے ہیں۔ 
بچوں میں غلط اور صحیح کی تمیز پیدا کرناوالدین کی ذمہ داری ہے۔ ڈرامے اورفلمیں معاشرے مسائل کی عکاسی کرسکتی ہیں‘ ایسی چیزوں کو سامنے لانا جو جو وقوع پذیر توہیں لیکن معاشرہ کسی بھی وجہ سے ان سے چشم کشائی کررہا ہے‘بہت حوصلے کی بات ہے اور یہ حوصلہ دکھاتا ہے ”ہم نیٹ ورک “بالخصوص مومنہ دُرید ۔اب خواہ اس پر کسی بھی قسم کے الزامات عائد کئے جائیں لیکن میری نظر میں اس سیریل سے جڑے تمام لوگ قابل ستائش ہیں جو مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ 
زخم چھپانے سے بھر نہیں جاتا بلکہ خراب ہوجاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کچھ عرصے قبل بھارتی اداکار عامر خان نے اس حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائی۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے سامنے بٹھا کر انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے بچوں کو سمجھایا کہ اگر کوئی ان کے جسم کے نازک حصو ّں کو چھوتا ہے تو وہ انہیں سختی سے منع کریں اور فوری طور پر اپنے والدین کو مطلع کریں۔یہ انتہائی ضروری عمل ہے‘ ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا ہے کیوں کہ یہ معصوم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اُن کے ساتھ آخر ہوکیا رہا ہے‘ جب وہ ٹی وی پر وہی کچھ ہوتا دیکھیں گے تو یقینا سمجھ جائیں گے کہ ایسے کسی بھی عمل کے جواب میں ان کا کیا ردعمل ہونا چاہئے۔
بچے ہم سب کے ہیں‘ ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کیلئے حساس ہونا چاہئے۔ ہمارے بچے ہم سے زیادہ سمجھ دار ہیں کہ ہر آنے والی نسل جانے والی نسل سے زیادہ ہوشیار ہوتی ہے۔ معاشرے کو صحیح اور غلط زاویوں سے روشناس کرانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ ”ہوہا “پر مشتمل ڈرامے اپنی جگہ لیکن ایسے ڈرامے بھی معاشرے کی اہم ضرورت ہیں جو مسائل کی عکاسی کریں اور لوگوں کو مسائل کے حل کی جانب راغب کریں۔