Thursday, 27 February 2014

یہ مانگنے والے

میں زینب مارکیٹ کے باہر کھڑی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی‘ ابھی بہ مشکل 2منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ دو فقیر اپنا سوال دراز کرنے کے بعد اپنا مقصد حاصل کرکے جاچکے تھے لیکن اس کے بعد اگلے پندرہ منٹوں میں کئی بھکاریوں نے میرا وہاں کھڑا رہنا محال کردیا‘سخت گرمی میں ایسے میں مانگنے والوں کی قطاروں نے جیسے میرے اعصاب شکستہ کردیئے ۔ میں نے ایسے میں کسی کو سخت سُست کہا ‘تو کسی کو جھڑک دیا ‘ جونہی مجھے اپنی گاڑی نظر آئی ‘میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس جانب بڑھ گئی ۔

ویسے تو شہر کراچی میںگداگری عام دنوں میں بھی ایک نہایت کامیاب بزنس ہے‘ شاید اسی وجہ سے پیشے سے منسلک لوگ کوئی دوسرا کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ شہر میں بسنے والے تو رہے ایک جانب جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان‘ راجن پور‘ خانپور کٹورہ‘ صادق آباد اور بہاولپور سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں گداگر کراچی میں موجود ہیں ۔ان گداگروں میں بوڑھے‘ جوان اور خواتین کے علاوہ جسمانی معذور بچوں بھی ہوتے ہیں جو شہر کے سگنل‘ چوراہے ‘ہوٹل ‘ ریسٹورنٹس‘ مساجد‘مارکیٹ اور شاپنگ سینٹروں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ان گداگروں کاکہنا ہے کہ کراچی آنے کا مقصد زیادہ پیسے حاصل کرنا ہے ۔یہاں کے خوشحال لوگوں سے انہیں زندگی گزارنے کے لئے مناسب رقم اور اشیائے ضروریہ مل جاتی ہیں ۔

معاشی بدحالی کے باوجود کراچی کے گداگر ایک عام محنت کش سے کئی گنا زیادہ پیسے کمالیتے ہیں‘یہاں پر عام دنوں میں صحت مند گداگر کی آمدنی 300 سے 400 روزانہ ہے جب کہ معذور گداگر 500 سے ہزار روپے روزانہ کما لیتے ہیں۔رمضان کے مہینے میں کروڑوں روپے زکواة و خیرات کی مد میں نکالے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں گداگروں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

سنا ہے کہ پیشہ ور گداگروں کےلئے 3 سے 5 سال قید کی سزا اور 500 سے 5000 روپے تک جرمانہ ہے لیکن کم از کم میں نے تو آج تک کسی گداگر کو سزا ہوتے دیکھا نہ سنا ۔ویسے بھی میرا ناقص خیال یہ ہے کہ یہ منظم گداگر اگر کبھی کسی وجہ سے گرفتار ہوتے بھی ہوں گے تو وہ عام شہری کی نسبت کچھ معاشی استحکام اور کچھ ججوں کی رحم دلی کی وجہ سے جلدہی عدالتوں سے ضمانت حاصل کرلیتے ہوں گے جسکے نتیجے میں یہ گداگر دوبارہ سڑکوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال سے پیشہ ورگداگر بھی پریشان ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ رات کو اپنے بچوں کے ہمراہ شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر سوتے ہیں۔ جب کبھی شہر کے حالات خراب ہوتے ہیں تو فائرنگ کی آوازیں سن کر ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں لیکن شہر میں خراب حالات کے باوجود سڑکوں پر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔

بھیک مانگنے والوں کو کسی کا ڈر خوف نہیں ہے ۔ سٹی وارڈنز ‘ شہری‘ ٹاﺅن حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک مانگی جاتی ہے بلکہ پولیس والے خود فقیروں کو بھیک دیتے نظر آتے ہیں ۔بعض افراد اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض پولیس والے خود گداگری کے ” کاروبار“ میں برابر کے شریک ہیں۔اس بات کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ مختلف چوکوں‘ مارکیٹوں اور بینکوں میں پولیس اہلکار وں کی بڑی تعداد تعینات ہوتی ہے جو چاہیں تو ان بھکاریوں اور گداگروں کے خلاف جوشریف لوگوں کو تنگ کرتے ہیں‘ ٹریفک میں خلل ڈالتے اور جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ‘ کے خلاف سخت کارروائی کرسکتے ہیں مگر سرکاری اہلکاروں کو چھوٹی گاڑیوں‘ موٹرسائیکل سواروں اور خوش طبعی کے عادی نوجوانوں کو گھیر کر نذرانہ وصول کرنے سے فرصت ملے تو وہ اس طرف توجہ دیں اور خلق خدا کو عذاب سے چھٹکارا دلائیں۔ پیشہ ور گروہ ان اہلکاروں کو ”ماہانہ “دیتے ہیں یا ”دیگر“ مصروفیات کی بناءپر یہ اہلکار ان کے تعرض نہیں کرتے خدا بہتر جانتا ہے ۔

اقوام متحدہ کے مطابق 18کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جب کہ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نے فرمایا کہ ہماری60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ گو کہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کےلئے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے اسکے باوجود بھیک مانگتے ہوئے افراد کی تعداد خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے‘ غربت کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔حکومتی نااہلی کے سبب گداگری ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جسے مافیا کنٹرول کرتی ہے-مختلف جگہوں اور علاقوں میں یہ مافیا اپنے خاص گداگر وںکو روزانہ‘ ہفتہ وار یا ماہانہ کی بنیاد پر تعینات کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو مقامات گداگری کے انتہائی منافع بخش قرار دیئے جاتے ہیں اُن کا باقاعدہ سودا کیا جاتا ہے اور انکے حصول کےلئے بااثر ٹھیکیداروں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ”اپنے گداگروں“سے ان مقامات پر بھیک منگواتے ہیں۔ ان علاقوں میں بولٹن مارکیٹ‘ صدر‘ طارق روڈ‘ ڈیفنس‘ کلفٹن‘ حیدری‘ کریم آباد ‘گلف ‘ زینب مارکیٹ ‘ صدر ‘ پاپوش نگر ‘زمزمہ سمیت کے علاقے شامل ہیں۔

جس طرح سے ہر پیشے میں اچھے اور بر ُے لوگ موجود ہیں اسی طرح سے گداگری کے پیشے وابستہ افراد کی اگر اکثریت غلط ہے تو بہت سے مستحق بھی ہیں لیکن افسوس کہ آج اُن میں تفریق ختم ہوکر رہ گئی ہے۔گداگری ایک معاشرتی روگ اور قوم کی بدحالی کی علامت ہے ۔ ایک غیرت مند اور خوددار معاشرے کو ترجیحی بنیادوں پر اس کا قلع قمع کرنا چاہئے ۔لاہور ہائی کورٹ نے چند سال قبل پیشہ وارانہ گداگری کی حوصلہ شکنی کے لئے حکم جاری کرتے ہوئے مفلس اور نادار افراد کی مالی معاونت کی بات کی تھی ۔ اگر اسی طرز پر حکومتی سطح پر کام کرتے ہوئے حقیقی غریبوں کو تلاش کرکے ان کی معاونت کی جائے اور پیشہ ور گداگروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو معاشرہ اس لعنت سے تیزی سے پاک ہوسکتا ہے۔


 


Thursday, 13 February 2014

قانون کے محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟

Wednesday, 12 February 2014

کتب بین کہاں سے لائیں ؟

رنگ برنگی اشیاءسے سجی ہوئی دکان پر ایک نوجوان بہت دیر سے ایک کتاب کی جانب متوجہ تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت کا احساس ہوا ‘ میں بلاارادہ اس کی جانب دیکھے گئی اور ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ابھی ہماری نوجوان نسل میں کتابوں کا شوق باقی ہے ۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور اس سے کہا ۔”یہ تم کتاب میں کیا تلاش کررہے ہو ؟“
نوجوان نے جواب دیا۔” میں اس اشتہار کو دیکھ رہا تھا‘ یار کتنی خوبصورت ہیوی بائیک ہے ناں۔“
دوسرے نے تائید میں سر ہلایا اور دونوں کتاب رکھ کر اپنی راہ کو ہولئے اور میں سوچتی رہ گئی کہ آج ہماری نوجوان نسل کی کتابوں میں دلچسپی صرف اشتہارات دیکھنے کی حد تک رہ گئی ہے ۔؟
”کتاب بہترین دوست ہوتی ہے “یہ مقولہ ہر خاص و عام نے سنا ہوگا لیکن آج ہماری نسل اس دوست سے محروم ہوچکی ہے۔جیسے جیسے عام آدمی کی سستی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے کتابیں اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہیں۔کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ہیں۔تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ہے ۔خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے۔
اب سے ایک نسل قبل تک کتب بینی کا شوق بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اسی وجہ سے آج بھی بہت سے گھرانوں میں ‘بطور خاص جہاں بزرگ موجود ہیں کتابیں شیلفوں پر سجی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن نئی نسل کی ان میں دلچسپی نہیں ہے۔ اگر کوئی بزرگ نوجوانوں کو کتابوں کی اہمیت سے روشناس کرانا بھی چاہے تو بے فیض لگتا ہے کیوں کہ آج کے نوجوان کی بورڈ پر چند حرف لکھ کر پوری دنیا تک تصرف حاصل کرلیتے ہیں انکے نزدیک کسی ایک موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کو لے کر بیٹھنا وقت کا زیاں ہے۔ بقول ایک نوجوان کے ” اتنے وقت میں ہم کمپیوٹر پر نجانے کیا کچھ کرلیں گے۔“
حقیقت یہ ہے کہ آج کے بچوں اور نوجوانوں کو وقت گزاری کےلئے بہت کچھ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک بچے بھاگ دوڑ کے کھیلوں کےساتھ ساتھ کتب بینی کے بھی شائق ہوا کرتے تھے۔ عمران سیریز ‘ انسپکٹر جمشید کی کہانیاںسمیت متعدد جرائد بچوں کی دلچسپی کے پیش نظر شائع کئے جاتے تھے۔ اخبارات میں بھی بچوں کےلئے کہانیوں اور لطائف پر مشتمل صفحات نہایت اہتمام سے شائع ہوتے اور بچوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کا نام ان صفحات کی زینت بنے لیکن گزرتے وقت کےساتھ جیسے سب ہی کچھ بدل کر رکھ گیا ہے۔ اب بچے اخبارات میں شائع ہونے والے ان صفحات کو دیکھتے بھی شاید ہی ہیں چہ جائیکہ وہ کہانیاں لکھیں ‘جب کہ نوجوانوں کے مشاغل کی تو بات ہی کیا ہے ان کی زندگی کا محور کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اورموبائل بن کر رہ گئے ہیں۔
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بڑا پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے اورخود آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کاادراک پیدا کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں کتب بینی معدوم ہوتی نظر آرہی ہے جس کے مستقبل میں نہایت مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ تعلیمی اداروں میں کم و بیش لائبریریاں زیر استعمال رہتی ہیں مگر ان کا استفادہ صرف نصابی سرگرمیوں کی حد تک کیا جاتا ہے جبکہ نصاب کی حدود سے آگے کتابوں کا مطالعہ طلباءاپنے لئے مصیبت سمجھتے ہیں۔ٹیکنالوجی کی یلغار کے علاوہ مطالعے میں کمی کی دیگر وجوہات میں کتابوں کا مہنگا ہونا ‘قوم میں سہل پسندی اور تفریحاتی رجحان کا بڑھنا بھی ہیں۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں جبکہ73فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں 42فی صد کتب بین مذہبی‘32فی صد عام معلومات یا جنرل نالج‘26فی صد فکشن اور  07فی صد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ 
کتابوں سے دوستی میں اضافہ‘ اشاعتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور کاپی رائٹس کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا نے کے لئے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اپیل پر 1995ء سے ہر سال باقاعدگی سے کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند سالوں سے حکومتی سرپرستی میں 22 اپریل کو کتاب کا قومی دن کا اہتمام کرتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی طرف سے سیمینارز‘ کانفرنسیں‘ ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں جبکہ اہم شاہراہوں اور پارکوں میں بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں مگر سال رواں میں پیر دباتے ہوئے گزر گیا اور اس حوالے سے پاکستان کے ایک درجن سے زائد نامور ادیبوں‘ محققوں‘ دانشوروں اور پبلشرز کی محافل کہیں دیکھنے یا سننے تک میں نہیں آئیںجس سے حکومت کے کتب بینی کے فروغ کے لئے سنجیدگی کی حد کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کتب بینی کی عادت کو نئی نسل میں بیدار کئے بغیر قوم کے مستقبل کوروشن نہیں بنایا جاسکتا‘ اس کے لئے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے جیسے کہ اسکولوں میں ریڈرز کلب کا قیام تا کہ طلباءو طالبات میں کتابوں سے رغبت پیدا کیا جاسکے۔ کتب بینی کے کلچر کو ترقی دینے کیلئے معاشرے کے تمام طبقوں کو متحرک ہونا ہوگا‘ کتاب پڑھنے کا شوق بچوں میں کم عمری میں ہی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس کےلئے اسکولوں میں لائبریری کے نظام کو جامع اور کثیر الجہت بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کےلئے والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر والدین کی نقل کرتے ہیں‘ اگر والدین گھر میں کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔
کتاب علم کا منبع اور افکار کا خزانہ ہے۔ کتب بینی کا شوق ذہن کو تازگی‘ روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتاہے۔ نسل نو کا کتاب دوستی کی طرف راغب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ طالب علموں کو سماجی اور تہذیبی زندگی کو سمجھنے کیلئے نصابی کتب سے آگے بڑھ کر فکر وآگہی کی پیامبر کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا‘ کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی اور برتری کا جائزہ لینے کا آسان نسخہ یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس قوم کے افراد کا علم اور کتاب سے کیا تعلق رہا ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کواس قوم کے حال کا صحیح علم ہو جائے گا بلکہ اس کے ماضی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اورآپ اس کے مستقبل کاقیاس بھی کر لیں گے جو اقوام علم اور کتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کی عادت اپنا لیتی ہیں وہ زندگی میں فتح و ظفر کی حقدار ہوتی ہیں۔




اسیر زادی جیسے ڈرامے پاکستان کے مثبت تاثر

 کو اُبھارتے ہیں   



 

عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے نجی چینلوں پر جو ڈرامے دکھائے جارہے ہیں ان میں سوائے عشق و محبت کے دوسری کوئی بات نہیں کی جارہی جب کہ کئی نجی چینل معاشرتی مسائل پر مبنی ایسے ڈرامے بھی پیش کررہے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ان ہی میں ایک ڈرامہ ”اسیر زادی “بھی ہے ۔ پہلی ہی قسط سے عوام میں مقبول ہونے والی اس ڈرامہ سیریل نے24ہفتوں تک ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ گزشتہ دنوں ختم ہونے والی ڈرامہ سیریل”اسیرزادی “نے اپنی کہانی اور موضوع کی وجہ سے عوام میں انتہائی مقبولیت حاصل کی۔اسیرزادی معاشرے کے اُس طبقے کی کہانی ہے جو روایات کی ڈور میں جکڑا ہوا ہے۔ اس طبقے میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مرد کی پہلی اور دوسری بیوی سے بچے نہیں ہوتے‘ اس لئے خاندان کا ہر مرد تیسری شادی کرتا ہے تاکہ اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔یہ خاندان’ بڑے پیر‘ کا ہے جو خاندان کے سربراہ ہیں۔ ا ن کا وارث شہاب بھی ا ن کی تیسری بیوی سے ہے جسے سب ’بڑی سرکاری‘ کہتے ہیں‘ گھر میں اسی کی حکمرانی ہے۔ شہاب کی بھی ایک شادی ہوچکی ہے لیکن اولاد کے لئے اسے دوسری شادی کرنا پڑتی ہے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ دوسری بیوی سے بھی اس کے کوئی اولاد نہیں ہوگی لیکن قسمت کے کھیل نرالے ہیں۔ اس کی دوسری بیوی ماں بن جاتی ہے جو کم از کم اس خاندان کے لئے انہونی ہے۔بڑی سرکار جو مزاجاً سخت اور سازشی عورت ہے ان سب معاملات پر غور کرتی ہے اور جب معاملے کی تہہ میں پہنچتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ سارا کیا دھرا بڑے پیر صاحب کا ہے جس کے بعد وہ مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اس کا غرور خاک میں مل جاتا ہے ‘ وہ اپنی بہو اور سوتنوں کے ساتھ رویہ بدلتی ہے اور اس کا بدلا ہوا رویہ اس خاندان میں انقلاب لانے کا سبب بن جاتا ہے۔کہانی میں ایک جانب پاکستانی معاشرے میں عورت پر روا ظلم و ستم ‘ اس کا معاشرے میں کمزور مقام کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب اسی معاشرے کی اپنے ارادے مضبوط عورت کا روپ بھی دکھایا گیا ہے ۔اسیر زادی تحریر مصطفی آفریدی کی جب کہاس کی ہدایات دی ہیں احتشام الدین نے۔ اسیر زادی کی پیش کش مومنہ د ±رید کی ہے جبکہ اداکاروں میں شامل ہیں ثانیہ سعید‘ فرح شاہ‘ سکینہ سموں‘ سلمان شاہد‘ نور حسن‘ عینی جعفری‘ الیشبہ محبوب‘ ثانیہ شمشاد اور یاسر۔
امریکہ میں ٹیکساس کے شہر سٹی آف پیرس کے میئر نے ہم کے معروف ڈرامہ سیریل ”اسیر زادی “کی اہمیت کے پیش نظر اس کے حوالے سے تقریبات کاایک پورا ہفتہ منایا جس کی وجہ سے ڈرامہ سیریل نے عالمی سطح پر مقبولیت اختیار کرلی۔ اسیر زادی پاکستانی معاشرے کا عکاس ہے‘ جبکہ اسیر زادی ہفتہ منانے کا مقصد امریکی معاشرے میں مختلف ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔ اس حوالے سے شہر کے میئر نے باضاطہ طور پر ایک خط جاری کیا ہے جس کے مطابق اسیر زادی ہفتے کا آغاز 20جنوری 2014ءسے کیا جاچکا ہے۔ واضح رہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی ڈرامے کو اس منفرد اعزاز سے نوازا گیا ۔ میئر کے خط میں اداکاروں کی اعلیٰ کارکردگی کی پذیرائی کے علاوہ مصنف کی عمدہ تحریر کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ ڈرامہ سیریل اسیر زادی امریکی اور پاکستانی معاشرے میں فرق اور مشابہت کو عمدگی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ہم کی صدر سلطانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم سٹی آف پیرس کے مئیر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ڈرامہ سیریل اسیر زادی کو پاکستانی ثقافت کی بہترین عکاسی کرنے پر اس منفرد اعزاز سے نوازا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں اسیر زادی ہفتے کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نیٹ ورک عالمی معیار کی تفریح فراہم کر رہا ہے جس کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے۔