یہ مانگنے والے
Thursday, 27 February 2014
Wednesday, 12 February 2014
رنگ برنگی اشیاءسے سجی ہوئی دکان پر ایک نوجوان بہت دیر سے ایک کتاب کی جانب متوجہ تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت کا احساس ہوا ‘ میں بلاارادہ اس کی جانب دیکھے گئی اور ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ابھی ہماری نوجوان نسل میں کتابوں کا شوق باقی ہے ۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور اس سے کہا ۔”یہ تم کتاب میں کیا تلاش کررہے ہو ؟“
نوجوان نے جواب دیا۔” میں اس اشتہار کو دیکھ رہا تھا‘ یار کتنی خوبصورت ہیوی بائیک ہے ناں۔“
دوسرے نے تائید میں سر ہلایا اور دونوں کتاب رکھ کر اپنی راہ کو ہولئے اور میں سوچتی رہ گئی کہ آج ہماری نوجوان نسل کی کتابوں میں دلچسپی صرف اشتہارات دیکھنے کی حد تک رہ گئی ہے ۔؟
”کتاب بہترین دوست ہوتی ہے “یہ مقولہ ہر خاص و عام نے سنا ہوگا لیکن آج ہماری نسل اس دوست سے محروم ہوچکی ہے۔جیسے جیسے عام آدمی کی سستی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے کتابیں اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہیں۔کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ہیں۔تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ہے ۔خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے۔
اب سے ایک نسل قبل تک کتب بینی کا شوق بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اسی وجہ سے آج بھی بہت سے گھرانوں میں ‘بطور خاص جہاں بزرگ موجود ہیں کتابیں شیلفوں پر سجی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن نئی نسل کی ان میں دلچسپی نہیں ہے۔ اگر کوئی بزرگ نوجوانوں کو کتابوں کی اہمیت سے روشناس کرانا بھی چاہے تو بے فیض لگتا ہے کیوں کہ آج کے نوجوان کی بورڈ پر چند حرف لکھ کر پوری دنیا تک تصرف حاصل کرلیتے ہیں انکے نزدیک کسی ایک موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کو لے کر بیٹھنا وقت کا زیاں ہے۔ بقول ایک نوجوان کے ” اتنے وقت میں ہم کمپیوٹر پر نجانے کیا کچھ کرلیں گے۔“
حقیقت یہ ہے کہ آج کے بچوں اور نوجوانوں کو وقت گزاری کےلئے بہت کچھ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک بچے بھاگ دوڑ کے کھیلوں کےساتھ ساتھ کتب بینی کے بھی شائق ہوا کرتے تھے۔ عمران سیریز ‘ انسپکٹر جمشید کی کہانیاںسمیت متعدد جرائد بچوں کی دلچسپی کے پیش نظر شائع کئے جاتے تھے۔ اخبارات میں بھی بچوں کےلئے کہانیوں اور لطائف پر مشتمل صفحات نہایت اہتمام سے شائع ہوتے اور بچوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کا نام ان صفحات کی زینت بنے لیکن گزرتے وقت کےساتھ جیسے سب ہی کچھ بدل کر رکھ گیا ہے۔ اب بچے اخبارات میں شائع ہونے والے ان صفحات کو دیکھتے بھی شاید ہی ہیں چہ جائیکہ وہ کہانیاں لکھیں ‘جب کہ نوجوانوں کے مشاغل کی تو بات ہی کیا ہے ان کی زندگی کا محور کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اورموبائل بن کر رہ گئے ہیں۔
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بڑا پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے اورخود آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کاادراک پیدا کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں کتب بینی معدوم ہوتی نظر آرہی ہے جس کے مستقبل میں نہایت مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ تعلیمی اداروں میں کم و بیش لائبریریاں زیر استعمال رہتی ہیں مگر ان کا استفادہ صرف نصابی سرگرمیوں کی حد تک کیا جاتا ہے جبکہ نصاب کی حدود سے آگے کتابوں کا مطالعہ طلباءاپنے لئے مصیبت سمجھتے ہیں۔ٹیکنالوجی کی یلغار کے علاوہ مطالعے میں کمی کی دیگر وجوہات میں کتابوں کا مہنگا ہونا ‘قوم میں سہل پسندی اور تفریحاتی رجحان کا بڑھنا بھی ہیں۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں جبکہ73فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں 42فی صد کتب بین مذہبی‘32فی صد عام معلومات یا جنرل نالج‘26فی صد فکشن اور 07فی صد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔
کتابوں سے دوستی میں اضافہ‘ اشاعتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور کاپی رائٹس کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا نے کے لئے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اپیل پر 1995ء سے ہر سال باقاعدگی سے کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند سالوں سے حکومتی سرپرستی میں 22 اپریل کو کتاب کا قومی دن کا اہتمام کرتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی طرف سے سیمینارز‘ کانفرنسیں‘ ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں جبکہ اہم شاہراہوں اور پارکوں میں بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں مگر سال رواں میں پیر دباتے ہوئے گزر گیا اور اس حوالے سے پاکستان کے ایک درجن سے زائد نامور ادیبوں‘ محققوں‘ دانشوروں اور پبلشرز کی محافل کہیں دیکھنے یا سننے تک میں نہیں آئیںجس سے حکومت کے کتب بینی کے فروغ کے لئے سنجیدگی کی حد کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کتب بینی کی عادت کو نئی نسل میں بیدار کئے بغیر قوم کے مستقبل کوروشن نہیں بنایا جاسکتا‘ اس کے لئے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے جیسے کہ اسکولوں میں ریڈرز کلب کا قیام تا کہ طلباءو طالبات میں کتابوں سے رغبت پیدا کیا جاسکے۔ کتب بینی کے کلچر کو ترقی دینے کیلئے معاشرے کے تمام طبقوں کو متحرک ہونا ہوگا‘ کتاب پڑھنے کا شوق بچوں میں کم عمری میں ہی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس کےلئے اسکولوں میں لائبریری کے نظام کو جامع اور کثیر الجہت بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کےلئے والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر والدین کی نقل کرتے ہیں‘ اگر والدین گھر میں کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔
کتاب علم کا منبع اور افکار کا خزانہ ہے۔ کتب بینی کا شوق ذہن کو تازگی‘ روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتاہے۔ نسل نو کا کتاب دوستی کی طرف راغب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ طالب علموں کو سماجی اور تہذیبی زندگی کو سمجھنے کیلئے نصابی کتب سے آگے بڑھ کر فکر وآگہی کی پیامبر کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا‘ کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی اور برتری کا جائزہ لینے کا آسان نسخہ یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس قوم کے افراد کا علم اور کتاب سے کیا تعلق رہا ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کواس قوم کے حال کا صحیح علم ہو جائے گا بلکہ اس کے ماضی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اورآپ اس کے مستقبل کاقیاس بھی کر لیں گے جو اقوام علم اور کتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کی عادت اپنا لیتی ہیں وہ زندگی میں فتح و ظفر کی حقدار ہوتی ہیں۔
اسیر زادی جیسے ڈرامے پاکستان کے مثبت تاثر
کو اُبھارتے ہیں
عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے نجی چینلوں پر جو ڈرامے دکھائے جارہے ہیں ان میں سوائے عشق و محبت کے دوسری کوئی بات نہیں کی جارہی جب کہ کئی نجی چینل معاشرتی مسائل پر مبنی ایسے ڈرامے بھی پیش کررہے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ان ہی میں ایک ڈرامہ ”اسیر زادی “بھی ہے ۔ پہلی ہی قسط سے عوام میں مقبول ہونے والی اس ڈرامہ سیریل نے24ہفتوں تک ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ گزشتہ دنوں ختم ہونے والی ڈرامہ سیریل”اسیرزادی “نے اپنی کہانی اور موضوع کی وجہ سے عوام میں انتہائی مقبولیت حاصل کی۔اسیرزادی معاشرے کے اُس طبقے کی کہانی ہے جو روایات کی ڈور میں جکڑا ہوا ہے۔ اس طبقے میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مرد کی پہلی اور دوسری بیوی سے بچے نہیں ہوتے‘ اس لئے خاندان کا ہر مرد تیسری شادی کرتا ہے تاکہ اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔یہ خاندان’ بڑے پیر‘ کا ہے جو خاندان کے سربراہ ہیں۔ ا ن کا وارث شہاب بھی ا ن کی تیسری بیوی سے ہے جسے سب ’بڑی سرکاری‘ کہتے ہیں‘ گھر میں اسی کی حکمرانی ہے۔ شہاب کی بھی ایک شادی ہوچکی ہے لیکن اولاد کے لئے اسے دوسری شادی کرنا پڑتی ہے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ دوسری بیوی سے بھی اس کے کوئی اولاد نہیں ہوگی لیکن قسمت کے کھیل نرالے ہیں۔ اس کی دوسری بیوی ماں بن جاتی ہے جو کم از کم اس خاندان کے لئے انہونی ہے۔بڑی سرکار جو مزاجاً سخت اور سازشی عورت ہے ان سب معاملات پر غور کرتی ہے اور جب معاملے کی تہہ میں پہنچتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ سارا کیا دھرا بڑے پیر صاحب کا ہے جس کے بعد وہ مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اس کا غرور خاک میں مل جاتا ہے ‘ وہ اپنی بہو اور سوتنوں کے ساتھ رویہ بدلتی ہے اور اس کا بدلا ہوا رویہ اس خاندان میں انقلاب لانے کا سبب بن جاتا ہے۔کہانی میں ایک جانب پاکستانی معاشرے میں عورت پر روا ظلم و ستم ‘ اس کا معاشرے میں کمزور مقام کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب اسی معاشرے کی اپنے ارادے مضبوط عورت کا روپ بھی دکھایا گیا ہے ۔اسیر زادی تحریر مصطفی آفریدی کی جب کہاس کی ہدایات دی ہیں احتشام الدین نے۔ اسیر زادی کی پیش کش مومنہ د ±رید کی ہے جبکہ اداکاروں میں شامل ہیں ثانیہ سعید‘ فرح شاہ‘ سکینہ سموں‘ سلمان شاہد‘ نور حسن‘ عینی جعفری‘ الیشبہ محبوب‘ ثانیہ شمشاد اور یاسر۔
امریکہ میں ٹیکساس کے شہر سٹی آف پیرس کے میئر نے ہم کے معروف ڈرامہ سیریل ”اسیر زادی “کی اہمیت کے پیش نظر اس کے حوالے سے تقریبات کاایک پورا ہفتہ منایا جس کی وجہ سے ڈرامہ سیریل نے عالمی سطح پر مقبولیت اختیار کرلی۔ اسیر زادی پاکستانی معاشرے کا عکاس ہے‘ جبکہ اسیر زادی ہفتہ منانے کا مقصد امریکی معاشرے میں مختلف ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔ اس حوالے سے شہر کے میئر نے باضاطہ طور پر ایک خط جاری کیا ہے جس کے مطابق اسیر زادی ہفتے کا آغاز 20جنوری 2014ءسے کیا جاچکا ہے۔ واضح رہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی ڈرامے کو اس منفرد اعزاز سے نوازا گیا ۔ میئر کے خط میں اداکاروں کی اعلیٰ کارکردگی کی پذیرائی کے علاوہ مصنف کی عمدہ تحریر کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ ڈرامہ سیریل اسیر زادی امریکی اور پاکستانی معاشرے میں فرق اور مشابہت کو عمدگی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ہم کی صدر سلطانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم سٹی آف پیرس کے مئیر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ڈرامہ سیریل اسیر زادی کو پاکستانی ثقافت کی بہترین عکاسی کرنے پر اس منفرد اعزاز سے نوازا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں اسیر زادی ہفتے کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نیٹ ورک عالمی معیار کی تفریح فراہم کر رہا ہے جس کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)