Thursday, 13 February 2014

قانون کے محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟


عروس البلاد شہر کراچی ایک بار پھر خاک و خون میں نہا گیا۔ علی الصبح اس کے گیارہ خاندانوں میں صف ماتم بچھا دی گئی۔ صبح تقریباً ساڑھے سات بجے کراچی کی نیشنل ہائی پر واقع رزاق آباد ٹریننگ سینٹر سے55 پولیس اہلکاروں سے بھری ہوئی بس بلاول ہاﺅس میں اپنی ذمہ داری نبھانے کے غرض سے نکلی‘ بس ابھی ٹریننگ سینٹر کے قریب ہی تھی کہ خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی‘ دھماکا اتنا شدید تھا کہ لوہے کی چادر کاغذ کی طرح اکھڑ گئی اور اندر بیٹھے درجنوں اہل کار بری طرح متاثر ہوئے‘ قریبی گاڑیاں بھی دھماکے کی زد میں آئیں جبکہ دھماکے میں استعمال کی گئی وین کا مختصر چیسس ہی بچا ہے۔حملے میں 11پولیس اہلکار ہلاک جب کہ  53زخموں سے چور ہوگئے ان میں سے8کی حالت نازک ہے ۔یہ حملہ ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم پر کئے گئے قاتلانہ حملے کی یاد بھی دلاتا ہے جنہیں اسی انداز میں بارود 


سے بھری ہوئی سوزوکی سے اڑایا گیا تھا۔
  کراچی میں گزشتہ ایک سال میں فائرنگ اور بم دھماکوں کے نتیجے میں 160 سے زیادہ پولیس اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا یہ بیان قریں از حقیقت لگتا ہے کہ دہشت گرد پولیس اور رینجرز سے ٹارگٹڈ آپریشن کا بدلہ رہے ہیں۔ 
 سندھ رینجرز اور پولیس نے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران اب تک 12,543 شدت پسند اوردہشت گردوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں جب کہ بڑی تعداد میں اسلحہ اور منشیات بھی برآمد کی گئی ہے۔ اتنی بڑی گرفتاریوں کے فوری طور پر تو اثرات سامنے نہیں آرہے لیکن اگر یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو امید ہے کہ کراچی امن کا گہوارہ نہ بھی بن سکا تو کم از کم دہشت گردوں کی آماجگاہ بھی نہیں رہے گا لیکن اس کے لئے کراچی کی عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑرہی ہے۔ صرف ایک سال میں دہشت گردوں نے 160سے زائد پولیس اہلکاروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنالیا جب کہ زخمیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔
دہشت گردوں کی ان مذموم کارروائیاں کا عام آدمی پر اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ قریب سے گزرتی ہوئی پولیس موبائل اسے خوفزدہ کرنے کے لئے بہت کافی ہے ایسے میں پولیس اہلکاروں اور اُن کے اہل خانہ کی ہمت کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی جو اپنے پیاروں کو ہر روز قرآنی آیات کے سائے میں رخصت کرتے ہیں اور جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ آتے ان کے گھر والوں کی سوچ ان کے ہی گرد گھومتی رہتی ہے۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض انجام دینے والے اگر اپنی جان سے چلے جائیں تو ان کے اہل خانہ کے لئے حکومت کی جانب سے معاوضے کے اعلان کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ اب جب کہ صوبائی اور وفاقی حکومت پرعزم ہے کہ بزدلانہ کارروائیوں سے خوفزدہ ہوکر آپریشن کا سلسلہ نہیں روکیں گے تو انہیں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی حفاظت کا مناسب بندوبست بھی کرنا چاہئے۔ انہیں بلٹ پروف جیکٹس و گاڑیاں اور جدید اسلحہ فراہم کیا جانا انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کی اس فضاء میں ایسے اقدامات نہ صرف پولیس و رینجرز اہلکاروں کے قتل عام کے سلسلے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ اس سے ان کے حوصلے اور عزم جواں ہوں گے۔ 






No comments:

Post a Comment