Tuesday, 30 December 2014

سال گزر گیا 
شازیہ انوار 
سال 2014ء اپنی تمام اچھائیوں اور خامیوں سمیت اپنے اختتام کو پہنچا ۔سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اس سال بھی بہت سی ناکامیاں اوربہت سے مسائل سامنے آئے جن کا تذکرہ ہر پلیٹ فارم پر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ملک میں آنے والی خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں جنہیں اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سب سے خوشگوار امر پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی ہے۔ اس سال پاکستان میں کئی اہم سرمایہ کاروں نے پاکستان کی ترقی کو نظر میں رکھتے ہوئے یہاں اپنی فرنچائز ےا مزیدبرانچیں قائم کرنے کا فیصلہ کیاجب کہ مقامی سرمایہ کاربھی میدان میں نظر آئے۔ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری اس اعتبار سے بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ اس کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع سامنے آتے ہیں جو خوشحالی کی جانب ایک قدم قرار دیا جاتا ہے۔آج ہمیں ہر جانب تبدیلی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔اس تبدیلی کو مثبت رُخ پر دیکھا جائے تو ہمیں کل سے زیادہ آج اپنے ہر عمر کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی نظر آتا ہے ۔ یہی جذبہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور خود کو دیگر ممالک سے آگے لانے جدوجہد بیدار کرتا ہے ‘پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بہترین اور حیران کن کارکردگی اس کی ایک بہترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔
جذبہ حب الوطنی اگر اسی طرح سے پروان چڑھتا رہا تو ہمارے مفادات خود تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ہم اپنے اردگرد نظر آنے والے ہر شخص کی بابت سوچیں گے ‘ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کی قدر کریں گے ۔وطن کی محبت سے سرشار معاشرے میں صبر‘ برداشت‘ تحمل‘ دیانت داری‘ فراخدلی‘ رحمدلی‘ شفقت اور محبت جیسے خواص پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں بیدار ہوتے ہوئے جذبہ حب الوطنی کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی دیر نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے۔
ہر سال دسمبر کی 10تاریخ کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے ہرانسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات ہے ۔آج سے 61سال قبل انسانی حقوق (human rights)کا آفاقی منشور اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرارداد سامنے آئی جو 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی جس کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق بارے اتفاق رائے پیدا کیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور جو بلا امتیاز فراہم کیا جانا چاہئے۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ایک دوسرے کی قدر کرنے کا متقاضی ہے ۔لوگ بھوک‘ پیاس‘ غربت‘ جہالت‘ کم علمی‘ سیاسی شعور کی کمی‘ بے روزگاری اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا مناسب نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔ آئیے ہم اپنی اپنی سطح پر اپنے لوگوں کو ان مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی کوششوں سے کسی ایک انسان کی زندگی کو بھی بہتر کرپائیں تو یقینا یہ معاشرے کی بہتری کے لئے ایک اہم سنگ میل ہوگا کیوں کہ قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی دن
شازیہ انوار 

10 جنوری کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کے منشور کی تیاری کے وقت انسانی حقوق کاموضوع مختلف ممالک کے نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔ اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر جنوری 1947ءمیں انسانی حقوق کمیشن تشکیل پایاجس کے بعد1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا گیاجب کہ 1950ء سے یہ دن مستقل بنیادوں پر منایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے اعلامئے کوجاری ہوئے 60 سال کاعرصہ گزرچکا ہے جس کامشترکہ مقصد دنیا کے ہر انسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم و ناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات تھا‘ تاہم انسانی حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔اس معاملے کو عالمی سطح پر انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انسانی حقوق کا تصور قدیم زمانہ سے موجود ہے اور اس کا تعلق دستاویزات سے نہیں بلکہ کسی بھی معاشرے‘ ملک یا خطے کی عمومی اخلاقیات اور ریاستی بالادستی سے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق میںزندگی کے حقوق‘ آزادی کے حقوق ‘جائیداد کے حقوق ‘بحث و مباحثہ کے حقوق ‘ کام کرنے کے حقوق ‘ووٹ کا حق ‘ الیکشن کا حق ‘پبلک افیئرزکے حقوق اورسیاسی افیئرز کے حقوق شامل ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر کس کے ‘کتنے حقوق پورے کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصو ّر بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام‘ وقار اور مساوات پر مبنی ہے لیکن افسوس کہ ہم آج ان چیزوں سے بہت د ُور ہوگئے ہیں۔ آج ہم لوگوں کو ان کے اسٹیٹس کے اعتبار سے محترم جانتے ہیں جب کہ مساوات تو خواب وخیال کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر شخص اپنے سے کم حیثیت کو انسان ہی نہیں سمجھتا ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار تسلسل کے ساتھ زوال پذیر ہیں۔ اسلام نے جس کے جو حقوق تفویض کئے ہیں اور برتری کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں‘ اگر ان پر سختی سے کاربند رہا جائے تو نہ خواتین پر پر تشدد ہوگا‘ نہ بچوں کے ساتھ مظالم ہوں گے‘ نہ غریب اپنی اولاد بیچنے پر مجبور ہوں گے او ر نہ ہی کسی کا پڑوسی بھوکا سوئے گا۔ ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا عقل مندی نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔