سال گزر گیا
شازیہ انوار
سال 2014ء اپنی تمام اچھائیوں اور خامیوں سمیت اپنے اختتام کو پہنچا ۔سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اس سال بھی بہت سی ناکامیاں اوربہت سے مسائل سامنے آئے جن کا تذکرہ ہر پلیٹ فارم پر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ملک میں آنے والی خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں جنہیں اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سب سے خوشگوار امر پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی ہے۔ اس سال پاکستان میں کئی اہم سرمایہ کاروں نے پاکستان کی ترقی کو نظر میں رکھتے ہوئے یہاں اپنی فرنچائز ےا مزیدبرانچیں قائم کرنے کا فیصلہ کیاجب کہ مقامی سرمایہ کاربھی میدان میں نظر آئے۔ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری اس اعتبار سے بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ اس کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع سامنے آتے ہیں جو خوشحالی کی جانب ایک قدم قرار دیا جاتا ہے۔آج ہمیں ہر جانب تبدیلی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔اس تبدیلی کو مثبت رُخ پر دیکھا جائے تو ہمیں کل سے زیادہ آج اپنے ہر عمر کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی نظر آتا ہے ۔ یہی جذبہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور خود کو دیگر ممالک سے آگے لانے جدوجہد بیدار کرتا ہے ‘پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بہترین اور حیران کن کارکردگی اس کی ایک بہترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔
جذبہ حب الوطنی اگر اسی طرح سے پروان چڑھتا رہا تو ہمارے مفادات خود تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ہم اپنے اردگرد نظر آنے والے ہر شخص کی بابت سوچیں گے ‘ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کی قدر کریں گے ۔وطن کی محبت سے سرشار معاشرے میں صبر‘ برداشت‘ تحمل‘ دیانت داری‘ فراخدلی‘ رحمدلی‘ شفقت اور محبت جیسے خواص پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں بیدار ہوتے ہوئے جذبہ حب الوطنی کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی دیر نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے۔
ہر سال دسمبر کی 10تاریخ کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے ہرانسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات ہے ۔آج سے 61سال قبل انسانی حقوق (human rights)کا آفاقی منشور اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرارداد سامنے آئی جو 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی جس کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق بارے اتفاق رائے پیدا کیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور جو بلا امتیاز فراہم کیا جانا چاہئے۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ایک دوسرے کی قدر کرنے کا متقاضی ہے ۔لوگ بھوک‘ پیاس‘ غربت‘ جہالت‘ کم علمی‘ سیاسی شعور کی کمی‘ بے روزگاری اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا مناسب نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔ آئیے ہم اپنی اپنی سطح پر اپنے لوگوں کو ان مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی کوششوں سے کسی ایک انسان کی زندگی کو بھی بہتر کرپائیں تو یقینا یہ معاشرے کی بہتری کے لئے ایک اہم سنگ میل ہوگا کیوں کہ قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے۔