Tuesday, 30 December 2014

انسانی حقوق کا عالمی دن
شازیہ انوار 

10 جنوری کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کے منشور کی تیاری کے وقت انسانی حقوق کاموضوع مختلف ممالک کے نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔ اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر جنوری 1947ءمیں انسانی حقوق کمیشن تشکیل پایاجس کے بعد1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا گیاجب کہ 1950ء سے یہ دن مستقل بنیادوں پر منایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے اعلامئے کوجاری ہوئے 60 سال کاعرصہ گزرچکا ہے جس کامشترکہ مقصد دنیا کے ہر انسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم و ناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات تھا‘ تاہم انسانی حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔اس معاملے کو عالمی سطح پر انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انسانی حقوق کا تصور قدیم زمانہ سے موجود ہے اور اس کا تعلق دستاویزات سے نہیں بلکہ کسی بھی معاشرے‘ ملک یا خطے کی عمومی اخلاقیات اور ریاستی بالادستی سے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق میںزندگی کے حقوق‘ آزادی کے حقوق ‘جائیداد کے حقوق ‘بحث و مباحثہ کے حقوق ‘ کام کرنے کے حقوق ‘ووٹ کا حق ‘ الیکشن کا حق ‘پبلک افیئرزکے حقوق اورسیاسی افیئرز کے حقوق شامل ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر کس کے ‘کتنے حقوق پورے کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصو ّر بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام‘ وقار اور مساوات پر مبنی ہے لیکن افسوس کہ ہم آج ان چیزوں سے بہت د ُور ہوگئے ہیں۔ آج ہم لوگوں کو ان کے اسٹیٹس کے اعتبار سے محترم جانتے ہیں جب کہ مساوات تو خواب وخیال کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر شخص اپنے سے کم حیثیت کو انسان ہی نہیں سمجھتا ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار تسلسل کے ساتھ زوال پذیر ہیں۔ اسلام نے جس کے جو حقوق تفویض کئے ہیں اور برتری کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں‘ اگر ان پر سختی سے کاربند رہا جائے تو نہ خواتین پر پر تشدد ہوگا‘ نہ بچوں کے ساتھ مظالم ہوں گے‘ نہ غریب اپنی اولاد بیچنے پر مجبور ہوں گے او ر نہ ہی کسی کا پڑوسی بھوکا سوئے گا۔ ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا عقل مندی نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment