Monday, 22 December 2014

عورتوں کے ساتھ بدسلوکی‘ آخر کب تک 

 شازیہ انوار 
انٹیلکیچولز کے ساتھ بیٹھنا اچھا تو بہت لگتا ہے لیکن کبھی کبھار یہ نہایت تکلیف دہ بھی ہوجاتا ہے جیسے کہ گزشتہ دنوں شہر کی ”انٹیلکیچول “ خواتین سے ایک غیر رسمی ملاقات رہی۔ ایک صحافی خاتون اپنے تجربات بیان کررہی تھیں ۔”اصل میں خواتین کے ساتھ مظالم اس لئے ہوتے ہیں کہ خاتون ظلم سہتی ہیں ۔ اگر ظلم کے خلاف پہلے ہی دن احتجاجی رویہ اختیار کرلیا جائے تو شاید ظالم کی ہمت نہ پڑے ظلم کرنے کی۔“
کئی خاتون نے تائید میں سر ہلایا۔ ایک دوسری خاتون گویا ہوئیں۔”صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں واویلا زیادہ کیا جاتا ہے ‘ ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے لیکن دیکھیں ناں دنیا میں کہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہماری عورتوں کو کم از کم مرد گھر بیٹھا کر کھلاتو دیتے ہیں یورپی ممالک میں تو عورتیں خود کماکر کھاتی ہیں اس پر بھی مردوں کی مار کھاتی ہیں۔“
اُن کی بات سن کر میں نے سوچا کہ انہیں دلائل دے کر قائل کروں کہ ہمارے ہاں اس وقت جس شرح سے خواتین تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں اس پر عالمی برادری بھی تشویش کا شکار ہے لیکن پھر مجھے خاموشی بہتر لگی کیونکہ وہ خاتون خود ایک کالم نگار اور خواتین کے حقوق کی بڑی علمبرہیں لیکن بہت دیر تک میں اس بات پر افسوس کرتی رہی کہ ہم قلم اٹھانے والوں کے قول و فعل ‘ تحریر و بیان میں کس قدر تضاد ہے ۔ 
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی خواتین دنےا کے دےگر ممالک کے مقابلے مےں پاکستان مےں حقوق نسواں کی صورت حال انتہائی تشوےشناک ہے۔ امرےکی محکمہ خارجہ کی اےک رپورٹ کے مطابق پاکستان مےں خواتےن پر تشدد عام اور سنگےن مسئلہ ہے۔انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والے گروہوں کا اندازہ ہے کہ 70سے 90فےصد خواتےن شوہروں ‘ سسرالی ےا دےگر رشتے داروں کے گھرےلو تشدد کا نشانہ بنتی ہےں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظےم پروگرےسو وےمن اےسوسی اےشن کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان مےں ہر سال 300نوجوان لڑکےوں کو ان کے سسرال والے زندہ جلا دےتے ہےں جو یقینا افسوس کی بات ہے لیکن اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان مےں سے بہت ہی کم واقعات کی پولےس تحقےقات کرتی ہے۔ 
 اندازے کے مطابق پاکستان مےں ہر24 گھنٹے مےں 8خواتےن کی عزت لوٹی جاتی ہے اور 70تا75 فےصد خواتےن کو گھرےلوتشدد کا نشانہ بناےا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کمےشن کی اےک رپورٹ کے مطابق ملک مےں ہر روز دس خواتےن پر جنسی حملہ کےا جاتا ہے‘اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے دےہی علاقوں مےں 82فےصد خواتےن معمولی باتوں پر شوہروں کی ناراضگی کے نتےجے مےں تشدد کا شکار بنتی ہےں‘ شہری علاقوں مےں 52فےصد خواتےن کا کہنا ہے کہ شوہر انہےں زدوکوب کرتے ہےں۔
کراچی مےں ملک بھر مےں عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ کم و بےش اےک جےسی ہے البتہ تعداد مےں کمی بےشی ہو سکتی ہے۔ آئے دن ہونے والے واقعات کو غےرت کے نام پر قتل‘ خودسوزی ےا خود کشی کا رنگ دےاجاتا ہے جب کہ تےزاب پھےنکنے اور جلا دےنے کے واقعات کی تعداد علیحدہ ہے۔ آئے دن اخبارات مےں شائع ہونے والی خبروں کو پڑھ کر اےسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک مےں اےسا معاشرہ بستا ہے جہاں عورت کی کوئی عزت نہےں ہے۔ ےہاں کھلے عام آئےن اور اسلامی قوانےن کی مردانگی کے نام پر دھجےاں اڑائی جاتی ہےں اور اس مےں ملو ث افراد کو اس لئے چھوٹ مل جاتی ہے کےونکہ ان کی پشت پناہی قبائل اور جرگے کرتے ہےں جہاں عورت کو بالکل ہی کمتر اور حقےر سمجھا جاتا ہے۔عورتوں پرہونے والے تشدد اور بے حرمتی کے واقعات کسی اےک مخصوص خطے ےا علاقے مےں نہےں ہورہے ہےں بلکہ پورے ملک مےں اس قسم کے واقعات کی اطلاعات آئے دن اخبارات کے ذرےعے ملتی رہتی ہے۔ موجودہ حکومت نے ملک مےں خواتےن کو ہر شعبے مےں مساوےانہ حقوق دلانے کےلئے ان کو 33فےصد نمائندگی دی ہے لےکن اسکے باوجود ان کے استحصال کا سلسلہ تھما نہیں ہے ۔
سندھ مےں عورتوں کو کاروکاری کے نام پر اس لئے قتل کردےا جاتا ہے کہ کہےں ان کو جائےداد مےں حصہ نہ دےنا پڑ جائے اسی لئے ےا تو ان کی شادےاں قرآن پاک سے کرادی جاتی ہے ےا غےرت کے نام پر قتل کرکے دنےا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کر کے اس کا حصہ ہڑپ کرلےا جاتا ہے۔ گھروں مےں ہونے والے ان تشدد کے باعث کئی خواتےن ذہنی طور پر بےمار ہوجاتی ہےں لےکن اےسے واقعات کو دنےا کے سامنے نہےں آنے دےا جاتا ‘اس لئے ان کے بارے مےں اب تک درست اعداد و شمار نہےں مل سکے ہےں۔
جامعہ کراچی کی اےک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ مےں سے چار خواتےن کو ملازمت کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کےا جاتاہے۔ رپورٹ مےںبتاےا گےا ہے کہ ویسے تو ہمارے معاشرے مےں ہر طبقے کی عورت ہی جسمانی ےا ذہنی تشدد کا شکار ہے لیکن کم آمدنی والے اور کم تعلےم ےافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتےن کی شرح زےادہ ہے۔
آج عورت کی چےخ و پکار اور مظلومےت کی داستانےں عالمی سطح پر سنی جارہی ہےں۔ دنےا بھر مےں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کےلئے عالمی برادری نے اس بات کو تسلےم کےا ہے کہ خواتےن پرتشدد کے خاتمے کو ممکن بنا کر صنف نازک کے وجود کو بکھرنے سے بچااجاسکتا ہے۔ 
اس سلسلے مےں حکومت کے علاوہ قلمکاروں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جب قلم اٹھائیں تو انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ انکے لکھے ہوئے الفاظ کہیں نہ کہیں ‘ کسی نہ کسی کے دل میں اتر کر کسی ایک خاتون کو ظلم کے شکنجے سے نجات دلانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
میں یہاں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ بعض مسائل ہمیں چبھتے ہیں‘ تکلیف دیتے ہیں‘ اذیت پہنچاتے ہیں اور حساس دماغوں کو جب یہ اذیت برداشت نہیں ہوتی تو اس اسے بانٹنے کیلئے قلم اٹھالیتے ہیں ‘ ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس درد سے واقف ہی نہیں اس کے باوجود وہ قلم سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تحریریں دلوں پر اثر انداز نہیں ہوا کرتیں۔

No comments:

Post a Comment