Wednesday, 28 October 2015

ہنرمند خواتین

محرم الحرام کی تحریم                            

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ”محرم“ کا لفظ تحریم سے بنا ہے اور تحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے۔ حرمت کے لفظی معنی عظمت اور احترام وغیرہ ہے۔اس بناء پر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والا ہے چونکہ یہ مہینہ بڑی عظمت اور فضیلت رکھتا ہے اور بڑا مبارک اور لائق احترام ہے اس لئے اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے۔
تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین اور منحصر بالفرد واقعہ جس نے نام نہاد اسلامی معاشروں کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کے رنگ میں رنگ دیا وہ سید الشہداءامام حسین ؓکا قیام ہے یہ قیام ان مردوں اور عورتوں دونوں کی فداکاریوں اور جانثاریوں پر مشتمل ہے جو پوری دنیا کے مسلمان مرد و زن بلکہ ہر انسان کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔ 
عاشورا کا واقعہ تمام خصوصیات کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مشتمل ہے۔یہ واقعہ صبر‘ استقامت ‘ شجاعت ‘پرہیز گاری‘ عقیدہ‘اخلاق اور طر ز زندگی سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایساواقعہ ہے جس میں چھوٹے اور بڑے‘ خواتین اور مرد سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا کردار ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عاشورہ کو وجود اور رونق عطا کرنے والے باایمان اور شجاع مجاہدین در حقیقت ماﺅں کی گودیوں کا سرمایہ تھے۔ 
 کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں حضرت زینبؓ ‘ حضرت کلثومؓ‘ حضرت سکینہ ؓ‘ اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا کی بیویوں اور ماﺅں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے مثال کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام حسینؓ کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت امام حسینؓ کا خواتین اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کتنا صائب تھا۔
کربلا کی ان مثالی خواتین نے ملوکیت کی پروردہ قوتوں کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا‘ یہاں تک کہ اپنے سہاگوں کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہ ا کے دین کی کشتی انسانیت کو ڈوبنے نہیں دیا۔واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی شید الشہد ا امام حسین ؓ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملوکیت کے مقابلے میں بیداری امت کی تحریک میں اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کی مثالی خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔
کربلا میں امام حسینؓ کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماﺅ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ زہراؓ کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہراؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ان عظیم ماﺅںکی ہمت ہی تھی کہ اسلام کی سر بلندی کے لئے ایک نے اپنی عمر بھر کی کمائی جناب علی اکبرؓ کو امام حسینؓ کے لئے عظیم مشن پرقربان کیا تو جناب ربابؓنے اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا۔ تربیت اگر ایسی ماﺅں کی ہو تو پھر فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ بنیں۔ 
 بی بی زینبؓ وہ ہستی ہیںجن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو تا قیامت اسی شدید جذبے سے یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں‘ کل ہی کا قصہ ہو۔ حضرت زینب ؓ قوت برداشت اور صبر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تھا جن کو !پ نے کمال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ سب سے بڑی ذمہ داری حضرت سجادؓ کی تیمارداری اور دشمن سے ان کی حفاظت‘ دوسری ذمہ داری ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت‘ جو بیوہ ہوچکی تھیں اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین ؓ گھر سے لے کر نکلے تھے اس کو انجام تک کردارِ اور گفتارِ زینبؓ نے پہنچایا۔ ان ہی کی سربراہی میں حضرت امام حسین ؓکے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی سازش کو بروقت بے نقاب کردیا۔
واقعہ کربلا کا ایک اور اہم کردار امیر المومنین علیؓکی بیٹی ام کلثوم بھی ہیں جنہوں نے دوران اسیری کوفہ و شام کے بازاروں میں خطبے دیئے ۔انہوںنے اپنے خطبوں میں جہاں کوفیوں اور شامیوں کی امام حسین ؓسے بے وفائی کی مذمت کی وہیں حرم رسول کی طرف نگاہ کرنے سے شدت سے منع بھی کیا۔ آپ کوفہ میں ایک خطبہ کے درمیان فرماتی ہیں: ”ترجمہ: اے کوفہ والو کیا تمہیں خدا و رسول سے شر م نہیں آتی کہ تم حرم رسول کی طرف نگاہ کر رہے ہو۔“
حضرت زینب ؓاور حضرت سکینہؓ کے بھی اس طرح کے بہت سارے خطبات اور واقعات پائے جاتے ہیں جن میں انہوں نے اپنے پردہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ 
اس کے علاوہ کاخ یزید میں حضرت زینب ؓ نے جو خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا ”اے یزید کیا یہ تیری عدالت ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ میں رہیں اور رسول زادیاں اسیر بنا کر بے مقنہ و چادر شہروں میں پھرائی جائیں اور لوگ اُن کا تماشا کریں۔“
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر خواتین حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ نہ دیتی تو امت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی بلکہ یہ کربلا میں ہی ختم ہوجاتی۔ ان خواتین نے ہی اس واقعہ کی یاد کو زندہ جاوید بنادیا۔
جگہ جگہ پر ان محترم خواتین کا احکام خداوندی کی طرف توجہ دلانا اور ان کی مکمل رعایت کرنا آج کی مسلمان خواتین کے لئے واضح درس ہے کہ یاد رکھو زمانہ کتنا بھی ترقی کیوں نہ کر جائے حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہو جائیں سماج کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے مگر یہ سختیاں اور دشواریاں کربلا کی سختیوں اور مصیبتوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔اس لئے ہمیشہ اپنے حوصلوں کا علم بلند رکھیں۔ حق کا ساتھ دیں‘ باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں تو راستے خود بخود سہل ہوجائیں گے۔


No comments:

Post a Comment