خواتین پولیس اہلکاروں کی ضرورت
رینجرز کے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں بیٹھی ہوئی نازک سی ایک خاتون اہلکار کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے بے حد خوشی ہوئی ۔شاید اس لئے کہ مجھے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایسی خواتین کی موجودگی کی اُمید نہیں تھی ‘ یا پھر شاید اس لئے کہ اپنے ملک کی عورتوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے میں دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔
ملک کی آبادی میں خواتین کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے تاہم انہیں درپیش مسائل اور اُن مسائل کا پولیس کے حل نہ ہونے کی ایک انتہائی اہم وجہ محکمہ پولیس میںخواتین کی مناسب نمائندگی کا نہ ہونا بھی ہے۔پولیس اسٹیشن میں خواتین پولیس آفیسریا اہلکار کی موجودگی سے خواتین خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔جب کوئی جرم ہوتا ہے تو خواتین اس میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتی ہیں یا تو مجرم ہوتی ہیں یا پھر مجرم کی رشتہ دار یا پھر وہ جرم کا شکار ہوتی ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے حوالے سے تمام کارروائی کرنے والی بھی خواتین ہوں۔ اسی طرح بہت سی دوسری کارروائیوں میں بھی خواتین پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس کی نوکری خواتین کے لئے موزوں نہیں سمجھی جاتی اسی لئے اوّل تو لڑکیوں کا اس جانب آنے کا رجحان ہی نہیں ہے اور اگر کوئی اس جانب آنا بھی چاہے تو اس لئے مناسب عہدہ ہی نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔آج بھی لوگ خواتین کو صنف نازک سمجھتے ہوئے انہیں کوئی پر ُخطر ذمہ داری تفویض کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔انہیں ایسا لگتا ہے کہ بعض شعبے خواتین کے لئے بنے ہی نہیں ہیں۔اگر خواتین ایسے شعبوں میں آجائیں تو بھی انہیں مخصوص ذمہ داریاں ہی دی جاتی ہیں جب کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک تک میں یہ رُجحان اب تبدیل ہورہا ہے۔ خواتین فوج کے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ دار بھی ہیں۔
چند سال قبل مسلمان ملکوں کی خواتین پولیس افسران کی 4روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا تھاجس میں 12سے زائد اسلامی ممالک کی خواتین پولیس افسران‘ اراکین پارلیمان اور سول سوسائٹی کے نمائندوںنے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد محکمہ پولیس میں خواتین کے عملی کردار کو بڑھانے اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے تجربات اور تجاویز کا تبادلہ تھا۔
اس کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ اوراسلامی دنیا کی خواتین پولیس افسران پر مشتمل اسلامک ویمن پولیس نیٹ ورک کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پولیس کے محکمے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے کردار کو بڑھانا بتایا گیا۔
اس کانفرنس میں شریک پاکستانی خواتین پولیس افسران نے اپنے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس محکمے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین پولیس اہلکاروں کو اہم ذمہ داریاں نہیںسونپی جاتیں جبکہ ان کے لئے ترقی کے مواقع بھی محدود ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ اوراسلامی دنیا کی خواتین پولیس افسران پر مشتمل اسلامک ویمن پولیس نیٹ ورک کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پولیس کے محکمہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے کردار کو بڑھانا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کانفرنس میں شریک دیگر 11ممالک کو اس کانفرنس سے کوئی فائدہ پہنچا ہو اور اس کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا ہو لیکن پاکستان میں اس کانفرنس کا کوئی مثبت نتیجہ دیکھنے میں نہیں آیا‘حالانکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کانفرنس کے اختتامی سیشن میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں وزرات داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ پولیس میں صنفی امتیاز ختم کرے ۔ ان کے مطابق خواتین پولیس کے فعال کردار اوراس محکمہ میں ان کی زیادہ نمائندگی ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کم کرنے میں مدد دے گی تاہم نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔
ہمارے ہاں خواتین کا پولیس کے محکمے میں 10فیصد کوٹہ مقرر کیا ہے لیکن دیگر شعبوں کے مقابلے میں یہ ایک مشکل شعبہ ہے اس لئے عمومی طور پر پاکستانی خواتین پولیس کے محکمے میں ملازمت سے گریز کرتی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں پولیس کے محکمے میں خواتین کی نمائندگی محض ایک فیصد ہے اور اس قدر کم نمائندگی کے باعث انہیں پیشہ وارانہ امور میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خواتین پریشان ہیں کہ ان کی ترقیاں نہیں ہوتی انہیں اہم ذمہ داریاں نہیں سونپی جاتی ہیں یہ سب اس لئے ہوتا کہ ان کی نمائندگی بہت کم ہے ان کی نمائندگی بڑھے گی تو وہ اپنے حقوق کے لئے بہتر طریقے سے آواز اُٹھا سکیں گی۔
یہاں یہ ذکر خارج از دلچسپی نہ ہوگا کہ ایرانی پولیس میں خواتین کا تناسب صرف 4 فیصد ہے۔ ایران میں ہر سال ایک مخصوص نظام کے تحت خواتین کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے ۔ان کی تعیناتی پولیس میں زیادہ تر خواتین اور بچوں سے متعلق شعبوں میں ہوتی ہے۔ایرانی پولیس کے شعبے میں خواتین کو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتی ہیں۔ انہیں چیلنجز کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت فراہم کی جاتی تاکہ وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں ۔اسی وجہ سے وہاں خواتین محکمہ پولیس میں بھرتی کی خواہاں نظر آتی ہیں۔
گزشتہ سال سعودی عرب کے شہروں ریاض اور جدہ میں خواتین پولیس کے سینٹرز قائم کئے گئے جہاں خواتین اپنے نجی‘ مالیاتی‘ املاک کے مسائل سمیت نکاح‘ طلاق‘ خلع اور نان نفقہ جیسے مسائل سے متعلق عدالتی احکام پر عمل درآمد کے لئے رجوع کرسکتی ہیںتاہم پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری خواتین اپنے مسائل کے حل کے لئے دربدر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔
ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ تعداد رکھنے والی خواتین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اہم ذمہ داریاں سونپنے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کئے جانے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ نہ صرف افرادی قوت کو مثبت سمت گامزن کرنے کی جانب قدم ہوگا بلکہ اس سے جرائم پیشہ خواتین کی اصلاح‘ ان سے تفیش کا عمل بھی سہل ہوجائے گا۔
No comments:
Post a Comment