Thursday, 15 June 2017

آئیے عید منائیں 

رمضان المبارک کا دوسرا عشرا بھی اختتام پذیر ہوا اور ہم تیسرے عشرے میں داخل ہوگئے۔ رمضان المبارک کا تیسرا عشرا طاق راتوں کے سبب عبادتوں سے تعبیر ہے اور یہی وہ وقت بھی ہے جب عید کی تیاریاں اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے شاپنگ مکمل ہوجاتی ہے جبکہ کچھ لوگ چاند رات تک بازار کے چکروں کو شغل قرار دیتے ہیں اور آخری وقت تک بازار جانے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں ۔تاہم اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بازاروں کی بھیڑ بھاڑ سے بچنے اور عبادات کو وقت دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان دونوں وجوہات کی بناءپر نہیں بلکہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کیلئے عید کی خوشیاں خریدنے کیلئے جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے اور جب کچھ پیسے ان کے ہاتھ میں آجاتے ہیں تو اس وقت تک بازاروں میں مہنگائی کا زور بڑھ چکا ہوتا ہے اور ہر چیز انہیں مہنگی ملتی ہے۔ایک ایسا بھی طبقہ ہمارے اردگرد ہے جو اتنا بھی نہیں کرپاتا‘ وہ صرف اپنے رب کے حضور دعا کرتا ہے کہ وہ ان کے لئے کوئی ایسا وسیلہ پیدا کردے کہ عیدکے دن ان کے آنگن میں بھی خوشیوں کی برسات ہو ۔عید ایک ایسا خوبصورت مذہبی تہوار ہے جو اپنے ساتھ دیگر افراد کی خوشیوں کا خیال رکھنے کا بھی درس دیتا ہے‘ لہٰذ ااپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کا‘ جو کسی بھی وجہ سے عید کی خوشیوں سے محرومی کا دُکھ جھیل رہے ہوں‘خاص خیال رکھیں۔دور حاضر نفسانفسی کا دور ہے جس میں ہر شخص صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے‘ بازاروں میں لوگ اپنے لئے دل بھر کر خریداری کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے کسی غریب پڑوسی یا رشتہ دار کا خیال تک نہیں آتا۔ تحفے تحائف کا سلسلہ معاشرے سے معدوم ہوتا نظر آرہا ہے جبکہ عید اور بقر عید جیسے مواقعوں پر کم از کم ایسے لوگوں کی خوشیوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے جو معاشی اعتبار سے غیر مستحکم ہیں اور عید کی خوشیوں کیلئے آ پ کی توجہ کے محتاج ہیں۔ اپنے لئے ایک لباس کم کرکے آپ کوفرق نہیں پڑے گا لیکن کسی اور کی عید ہوجائے گی‘تو پھر سوچئے نہیں‘ دوسروں سے عید کی خوشیاں بانٹ کر آئیے سچی اور حقیقی خوشی کے ساتھ عید منائیں ۔

Friday, 10 June 2016

اکیلی عورت بوجھ  کیوں ؟
شازیہ انوار

”کچھ دن تو انتظار کیا ہوتا‘ ادھر شوہر نے آنکھیں بند کی نہیں کہ محترمہ ہاتھوں پر مہندی رچا بیٹھیں۔“
”ہاں بھائی‘ زمانہ ہی سیاہ ہے ‘ ہمارے زمانے میں تو بیوہ عورتیں گھر سے نکلنے میں بھی جھجھکتی تھیں لیکن آج تو جیسے سب ہی کچھ بدل چکا ہے ۔ “
یہ وہ گفتگو تھی جو ایک محفل میں دو خواتین نہایت اہتمام سے کررہی تھیں اور کئی خواتین اردگرد بیٹھی ان کی باتوں کی تائید میں سر ہلاتی نظر آرہی تھیں۔ جب میں ان میں سے دو ایک ایسی خواتین کو ذاتی طور پر جانتی ہوں جن کی بیوہ بہن یا بیٹی بیوگی کا عذاب جھیل رہی ہیں لیکن کسی ایک بیوہ عورت کے لئے وہ جس بے دردی سے اپنی رائے کا اظہار کررہی تھیں اس پر میں سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کرسکی۔
ہمارا معاشرہ ویسے تو کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن کچھ سماجی مسائل ایسے ہیں جن کو حل کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنی دقیانوسی سوچ اور گلی سڑی اقدار کی لکیر کو پیٹنے سے باز نہیں آتے ۔ بہت سے لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی روش کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ ان گوناں گو مسائل میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا ‘ عورتوں کی طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح اور بیوگی بھی شامل ہیں۔
اس وقت ہمارے ہاں ایسی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو شادی کے بعد ناچاقی کی بناءپر خلع یا طلاق لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر قدرت ان کے سروں سے شوہروں کا سایہ چھین لیتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو شادی کی عمرسے تجاوز کرچکی ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 30سے 45سال کی 60لاکھ سے زائد بیوائیںہیں۔ دوسری طرف گیلپ سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں طلاق کی شرح 48فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں بیواﺅں اور طلاق یافتہ عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ادھر پاکستان کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر کراچی میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رُجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘ فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں‘ ایک ہزار خواتین خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جب کہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں‘ خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی‘ جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میںدس سے زائد خواتین خلع کے لئے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج‘ جبری شادی کرنے والی خواتین کی ہے‘ دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کر رہی ہیں۔
بیوہ ہونا کسی کے اختیار میں نہیں اور اسی طرح خلع یا طلاق یافتہ ہونے میں بھی ضروری نہیں کہ عورت ہی ذمہ دار ہولیکن معاشرہ ایسی خواتین کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ مردانہ سماج ایسی عورتوں سے دوستی رکھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے لیکن ان عورتوں سے نکاح ان کی لغت میں نہیں ہے۔ایسی خواتین جن کے والدین نہ ہوں اور انہیں کسی بھی صورت میں تنہا زندگی گزارنی پڑے‘ ان کے لئے گھروں سے باہر نکلنا باعث ملامت بن کر رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں جہاں جوان اور کنواری لڑکیوں کی شادیوںکے لئے جو معیارات قائم ہیں وہاں بیوہ ‘ خلع یا طلاق یافتہ کے ساتھ شادی بے حد پیچیدہ معاملہ نظر آتا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرنے کے لئے تیار ہوبھی جائے تو اسے اپنے گھر‘ خاندان اورمعاشرے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اکیلی خواتین نہ تو اپنے کسی عزیز کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں اور نہ ہی کسی عزیز کو اپنے ہاں بلا سکتی ہیں‘ لوگ ان کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اکیلی عورت کے ساتھ غیروں کے سلوک کی تو بات ہی کیا اپنوں کا رویہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔بہن بھائی یہاں تک کہ ماں باپ بھی اسے بوجھ سمجھنے لگتے ہیں ایسے میں اگر ان کے ساتھ بچے ہوں تو مرے پہ سو دُرے کے مصداق اس کی زندگی میں مزید زہر گھل جاتا ہے اور آخرکار اسے فکر معاش اور اپنے بچوں کو عزت دار زندگی فراہم کرنے کی غرض سے ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں بچوں کی دیکھ بھال کے نام پر بھی اسے گاہے بگاہے بھابھیوں اوربہنوں کی جانب سے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے خواتین کی اکثریت شوہر کی مار‘ بے عزتی اور زیادتیوں کو برداشت کرلیتی ہیں ‘تاہم بیواﺅں کے پاس کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بیوہ عورت کے ساتھ زیادتی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہے کہ اس کے سسرال والے اس سے تقریباً قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ بیوہ ہونے بعد شوہر کی جائیداد میں سے سسرال والے اکثر حصہ نہیں دیتے اور اگر بیوہ عدالت سے رجوع کرے تو وہاں پر بھی اسے اتنے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا اکیلی عورت کے بس کی بات نہیں جب کہ اسلام بیوہ عورت کو اپنے سابقہ خاوند کے ترکہ میں سے حصہ دار قرار دیتا ہے خواہ وہ دوسری شادی کرے یا نہ کرے۔
ہمارے معاشرے میں مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ اس کے فیصلے کو سراہتے ہیںکیوں کہ ان کے نزدیک گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے دوسری شادی ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ عورت دوسری شادی کرلے تو اس پرالزامات کی بارش کردی جاتی ہے جو ایک انتہائی قبیح عمل ہے۔ ایک بیوہ عورت کو مرد کی نسبت شادی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ وہ معاشرتی اور معاشی طور پر مرد سے کمزور ہے اس کے لئے بچے پالنا اور معاشرے میں تنہا رہنا زیادہ مشکل ہے لیکن ہمارے ہاں مرد تو مرد خواتین بھی تنقیدسے باز نہیں آتیں ۔
ہم مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اسلامی روایات پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے لیکن کم از کم شادی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم شادی بیاہ کے معاملے میں غیر مسلموں سے بدتر ہیں جب کہ ہمارے پیارے رسول ا نے شادی کے حوالے سے جو بہترین مثالیں قائم کی ہیں جن پر عمل پیراءہونے سے بے شمار مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔




رمضان 

ماہ صیام اپنی رحمتوں کے ساتھ جلوہ گر ہ ہے۔ مہنگائی کے اس زمانے میں رمضان متوسط طبقے کےلئے فکر و پریشانیاں بھی اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ رمضان میں اپنے دسترخوان کو وسیع کرے لیکن مہنگائی اس جائز خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاﺅٹ نظر آتی ہے‘ ایسے میں رمضان کی آمد سے قبل اگر کچھ منصوبہ بندی کرلی جائے تو رمضان المبارک میں کچھ مسائل سے تو بچا ہی جاسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر بازار سے سموسے اور رولز ‘وغیرہ خریدنے کے بجائے گھر پر تیار کریں۔یہ نہ صرف صحت بلکہ آپ کی جیب کےلئے بھی مفید ہوگا کیونکہ افطار کے دسترخوان کا لازمی حصہ ّ سمجھے جانے والے سموسے اور رولز بازار میں قدرے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے تیزابی مشروبات کے بجائے پھلوں کے جوسزصحت اور جیب دونوں کےلئے مفیدہوسکتے ہیں۔پھلوں کی خریداری افطار کے بعد کریں تاکہ اگلے دن کے دسترخوان پر بلاتکلف پھل سجائے جاسکیں۔اگر افطاری شاندار بنائی جارہی ہو توکھانا سادہ اور سحری تک کا حساب رکھ کر بنائیں۔سحری میں بالخصوص کوئی اہتمام کرنے سے گریز کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ تھوڑی سی سوچ سمجھ اور صبر سے کام لینا بہت سی مشکلات سے محفوظ رکھنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم میں سے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہوئے اپنے من پسند کھانوں کیلئے اصرار کرتی ہے لیکن یہ مہینہ بھو ُکا پیاسا رہ کر دوسروں کی بھوک اور پیاس کو محسوس کرنے کا نام ہے ‘ لہٰذا جہاں اس مہینے کی روح کے عین مطابق خشو ع و خضوع سے عبادات کا سلسلہ دراز کیا جاتا ہے‘ وہیں جہاں تک ممکن ہو اپنے دسترخوانوں کو مستحقین کےلئے دراز کریں تاکہ آپ کی طرح دوسرے بھی اس مہینے کی برکتوں سے فیضاب ہوسکیں اور آپ کے اس عمل کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اور برکت آپ کے اُوپر سایہ فگن رہے۔

Wednesday, 18 May 2016

اُڈاری پر تنقید کی آخر کیا وجہ ہے ؟

اُڈاری پر تنقید کی آخر کیا وجہ ہے ؟

ہم نیٹ ورک کے ڈرامہ سیریل اُڈاری کے حوالے سے پیمرا کی اظہار وجوہ کے نوٹس کا اجراءکم از کم میرے لئے انتہائی حیران کن ہے ۔ اس سیریل کے انفرادی اور حساس موضوع کے پیش نظر اُڈاری کے ون لائنر کے آنے سے لے کر اس کی پریس کانفرنس تک ہر قدم میری نگاہ میں رہا۔ پریس کانفرنس میں ڈرامے کی جھلکیاں دیکھ کر کم از کم میرے تو رونگھٹے کھڑے ہوئے کیوں کہ میں بھی ایسی کچھ بچیوں کو جانتی ہوں جو اس صورتحال سے گزر یں ۔ پریس کانفرنس میں احسن خان نے حاضرین کو بتایا کہ ان کے اس سیریل میں کام کرنے کا سبب بنی اس کے گھر کی نوکرانی جس کی بیٹی اس عذاب کا شکار تھی۔
سب سے پہلے تو کچھ اُڈاری کے بارے میں جو پروڈیوسرمومنہ دُرید (ایم ڈی پروڈکشنز)اور کشف فاو ¿نڈیشن کی مشترکہ کاوش ہے اورکینڈین حکومت کے تعاون سے پیش کیا جارہا ہے۔اُڈاری ایک انتہائی سنجیدہ ‘ تکلیف دہ اور حساس موضوع پر بنائی جانے والی ڈرامہ سیریل ہے جس کی بنیاد معصوم بچوں سے زیادتی ہے اور اسے گانے بجانے والوں کی مشکلات کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا ہے۔ اُڈاری معروف ناول نگار فرحت اشتیاق کی تحریر ہے جس کے ہدایت کار احتشام الدین ہیں۔”ا ±ڈاری “کے نمایاں ستاروں میں بشریٰ انصاری‘ سمیہ ممتاز ‘ لیلیٰ زبیری ‘ احسن خان ‘ فرحان سعید اور عروہ حسین شامل ہیں یعنی اس سیریل سے متعلق تمام افراد انتہائی ذمہ دار اور معاشرے میں اہم مقام رکھنے والے افراد ہیں جو یقینا عام لوگوں سے زیادہ باشعور بھی ہیں۔
اُڈاری کے حوالے سے کسی نے لکھا کہ اس ڈرامے کے ذریعے بے حیائی عام کی جارہی ہے توکسی نے تحریر کیا کہ ریپ سین کو کھلے بندوں دکھایا جارہا ہے ۔ بعض نے اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز جملے تحریر کئے جو تنقید برائے تنقید سے زیادہ کچھ اور نہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُڈاری میں معاشرے کے اُس مکروہ ترین چہرے کی عکاسی کی گئی ہے جو ہر دوسرے گھر میں موجود اپنے ہی لوگوں کی عزتوں کو مجروح کررہے ہیں۔ پڑھنے والے تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں بھی کوئی نہ کوئی ایسا نام یاد آہی جائے گا جو اڈاری کے ”امتیاز“کی یاد دلا جائے گا۔
اولاً تو یہ کہ ہم ٹی وی کو شہرت کے حصول کیلئے کسی بھی قسم کے منفی کام انجام دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘اس کے ڈراموں کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت ازطشت از بام ہے۔دوئم یہ ہے کہ جو مسئلہ اُڈاری کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس وقت اس کی حساسیت کو محسوس کرنا نہایت ضروری ہے۔چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں‘ ہم انہیں پڑھتے ہیں‘ افسوس کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں ۔اس کے بعد جب کوئی دوسرا واقعہ سامنے آتا ہے تو پھر افسوس کے کلمات کی ادائیگی ہوکر ہوا کے ساتھ اُڑ جاتی ہے۔اس حوالے سے کسی بھی پلیٹ فارم سے کوئی بھی عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا ۔معاشرے کی اسی بے حسی کی وجہ سے جاوید اقبال جیسے لوگ 100بچوں کے قاتل بن جاتے ہیں۔تیسری اور اہم ترین بات یہ کہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے والے پیمرا نے کیا کبھی کیبل پر چلنے والی فلمیں نہیں دیکھیں؟ حقیقی زندگی پر عکس بند کئے جانے والے بے شمار اور انتہائی ڈراموں پر کبھی غور کیا ہے جس میں ایسے ایسے مناظر پیش کئے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ یقینا چینل بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔سینما پر لگائی جانے والے بے شمار فلمیں ایسی ہیں جن کا موضوع اور آزادانہ عکس بندی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ان میں ”دوستانہ “جیسی انتہائی آزاد موضوع کی فلم بھی شامل ہے۔اور جہاں تک بات آزاد موضوع کی ہے جسے لوگ فحاشی سے تعبیر کررہے ہیں تو پھر بچوں کیلئے مخصوص چینلوں کو دیکھ لیجئے جہاں سے بچوں کو قبل از وقت باشعور بنانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کارٹونز اور دیگر پروگرامز نشر کئے جارہے ہیں۔ 
بچوں میں غلط اور صحیح کی تمیز پیدا کرناوالدین کی ذمہ داری ہے۔ ڈرامے اورفلمیں معاشرے مسائل کی عکاسی کرسکتی ہیں‘ ایسی چیزوں کو سامنے لانا جو جو وقوع پذیر توہیں لیکن معاشرہ کسی بھی وجہ سے ان سے چشم کشائی کررہا ہے‘بہت حوصلے کی بات ہے اور یہ حوصلہ دکھاتا ہے ”ہم نیٹ ورک “بالخصوص مومنہ دُرید ۔اب خواہ اس پر کسی بھی قسم کے الزامات عائد کئے جائیں لیکن میری نظر میں اس سیریل سے جڑے تمام لوگ قابل ستائش ہیں جو مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ 
زخم چھپانے سے بھر نہیں جاتا بلکہ خراب ہوجاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کچھ عرصے قبل بھارتی اداکار عامر خان نے اس حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائی۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے سامنے بٹھا کر انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے بچوں کو سمجھایا کہ اگر کوئی ان کے جسم کے نازک حصو ّں کو چھوتا ہے تو وہ انہیں سختی سے منع کریں اور فوری طور پر اپنے والدین کو مطلع کریں۔یہ انتہائی ضروری عمل ہے‘ ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا ہے کیوں کہ یہ معصوم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اُن کے ساتھ آخر ہوکیا رہا ہے‘ جب وہ ٹی وی پر وہی کچھ ہوتا دیکھیں گے تو یقینا سمجھ جائیں گے کہ ایسے کسی بھی عمل کے جواب میں ان کا کیا ردعمل ہونا چاہئے۔
بچے ہم سب کے ہیں‘ ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کیلئے حساس ہونا چاہئے۔ ہمارے بچے ہم سے زیادہ سمجھ دار ہیں کہ ہر آنے والی نسل جانے والی نسل سے زیادہ ہوشیار ہوتی ہے۔ معاشرے کو صحیح اور غلط زاویوں سے روشناس کرانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ ”ہوہا “پر مشتمل ڈرامے اپنی جگہ لیکن ایسے ڈرامے بھی معاشرے کی اہم ضرورت ہیں جو مسائل کی عکاسی کریں اور لوگوں کو مسائل کے حل کی جانب راغب کریں۔


Wednesday, 28 October 2015

خواتین پولیس اہلکاروں کی ضرورت

خواتین پولیس اہلکاروں کی ضرورت           

رینجرز کے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں بیٹھی ہوئی نازک سی ایک خاتون اہلکار کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے بے حد خوشی ہوئی ۔شاید اس لئے کہ مجھے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایسی خواتین کی موجودگی کی اُمید نہیں تھی ‘ یا پھر شاید اس لئے کہ اپنے ملک کی عورتوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے میں دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔
ملک کی آبادی میں خواتین کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے تاہم انہیں درپیش مسائل اور اُن مسائل کا پولیس کے حل نہ ہونے کی ایک انتہائی اہم وجہ محکمہ پولیس میںخواتین کی مناسب نمائندگی کا نہ ہونا بھی ہے۔پولیس اسٹیشن میں خواتین پولیس آفیسریا اہلکار کی موجودگی سے خواتین خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔جب کوئی جرم ہوتا ہے تو خواتین اس میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتی ہیں یا تو مجرم ہوتی ہیں یا پھر مجرم کی رشتہ دار یا پھر وہ جرم کا شکار ہوتی ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے حوالے سے تمام کارروائی کرنے والی بھی خواتین ہوں۔ اسی طرح بہت سی دوسری کارروائیوں میں بھی خواتین پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس کی نوکری خواتین کے لئے موزوں نہیں سمجھی جاتی اسی لئے اوّل تو لڑکیوں کا اس جانب آنے کا رجحان ہی نہیں ہے اور اگر کوئی اس جانب آنا بھی چاہے تو اس لئے مناسب عہدہ ہی نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔آج بھی لوگ خواتین کو صنف نازک سمجھتے ہوئے انہیں کوئی پر ُخطر ذمہ داری تفویض کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔انہیں ایسا لگتا ہے کہ بعض شعبے خواتین کے لئے بنے ہی نہیں ہیں۔اگر خواتین ایسے شعبوں میں آجائیں تو بھی انہیں مخصوص ذمہ داریاں ہی دی جاتی ہیں جب کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک تک میں یہ رُجحان اب تبدیل ہورہا ہے۔ خواتین فوج کے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ دار بھی ہیں۔
چند سال قبل مسلمان ملکوں کی خواتین پولیس افسران کی 4روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا تھاجس میں 12سے زائد اسلامی ممالک کی خواتین پولیس افسران‘ اراکین پارلیمان اور سول سوسائٹی کے نمائندوںنے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد محکمہ پولیس میں خواتین کے عملی کردار کو بڑھانے اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے تجربات اور تجاویز کا تبادلہ تھا۔
اس کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ اوراسلامی دنیا کی خواتین پولیس افسران پر مشتمل اسلامک ویمن پولیس نیٹ ورک کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پولیس کے محکمے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے کردار کو بڑھانا بتایا گیا۔
اس کانفرنس میں شریک پاکستانی خواتین پولیس افسران نے اپنے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس محکمے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین پولیس اہلکاروں کو اہم ذمہ داریاں نہیںسونپی جاتیں جبکہ ان کے لئے ترقی کے مواقع بھی محدود ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ اوراسلامی دنیا کی خواتین پولیس افسران پر مشتمل اسلامک ویمن پولیس نیٹ ورک کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پولیس کے محکمہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے کردار کو بڑھانا ہے۔ 
ہوسکتا ہے کہ کانفرنس میں شریک دیگر 11ممالک کو اس کانفرنس سے کوئی فائدہ پہنچا ہو اور اس کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا ہو لیکن پاکستان میں اس کانفرنس کا کوئی مثبت نتیجہ دیکھنے میں نہیں آیا‘حالانکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کانفرنس کے اختتامی سیشن میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں وزرات داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ پولیس میں صنفی امتیاز ختم کرے ۔ ان کے مطابق خواتین پولیس کے فعال کردار اوراس محکمہ میں ان کی زیادہ نمائندگی ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کم کرنے میں مدد دے گی تاہم نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔
 ہمارے ہاں خواتین کا پولیس کے محکمے میں 10فیصد کوٹہ مقرر کیا ہے لیکن دیگر شعبوں کے مقابلے میں یہ ایک مشکل شعبہ ہے اس لئے عمومی طور پر پاکستانی خواتین پولیس کے محکمے میں ملازمت سے گریز کرتی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں پولیس کے محکمے میں خواتین کی نمائندگی محض ایک فیصد ہے اور اس قدر کم نمائندگی کے باعث انہیں پیشہ وارانہ امور میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خواتین پریشان ہیں کہ ان کی ترقیاں نہیں ہوتی انہیں اہم ذمہ داریاں نہیں سونپی جاتی ہیں یہ سب اس لئے ہوتا کہ ان کی نمائندگی بہت کم ہے ان کی نمائندگی بڑھے گی تو وہ اپنے حقوق کے لئے بہتر طریقے سے آواز اُٹھا سکیں گی۔
یہاں یہ ذکر خارج از دلچسپی نہ ہوگا کہ ایرانی پولیس میں خواتین کا تناسب صرف 4 فیصد ہے۔ ایران میں ہر سال ایک مخصوص نظام کے تحت خواتین کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے ۔ان کی تعیناتی پولیس میں زیادہ تر خواتین اور بچوں سے متعلق شعبوں میں ہوتی ہے۔ایرانی پولیس کے شعبے میں خواتین کو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتی ہیں۔ انہیں چیلنجز کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت فراہم کی جاتی تاکہ وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں ۔اسی وجہ سے وہاں خواتین محکمہ پولیس میں بھرتی کی خواہاں نظر آتی ہیں۔
گزشتہ سال سعودی عرب کے شہروں ریاض اور جدہ میں خواتین پولیس کے سینٹرز قائم کئے گئے جہاں خواتین اپنے نجی‘ مالیاتی‘ املاک کے مسائل سمیت نکاح‘ طلاق‘ خلع اور نان نفقہ جیسے مسائل سے متعلق عدالتی احکام پر عمل درآمد کے لئے رجوع کرسکتی ہیںتاہم پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری خواتین اپنے مسائل کے حل کے لئے دربدر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔
ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ تعداد رکھنے والی خواتین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اہم ذمہ داریاں سونپنے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کئے جانے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ نہ صرف افرادی قوت کو مثبت سمت گامزن کرنے کی جانب قدم ہوگا بلکہ اس سے جرائم پیشہ خواتین کی اصلاح‘ ان سے تفیش کا عمل بھی سہل ہوجائے گا۔




ہنرمند خواتین

محرم الحرام کی تحریم                            

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ”محرم“ کا لفظ تحریم سے بنا ہے اور تحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے۔ حرمت کے لفظی معنی عظمت اور احترام وغیرہ ہے۔اس بناء پر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والا ہے چونکہ یہ مہینہ بڑی عظمت اور فضیلت رکھتا ہے اور بڑا مبارک اور لائق احترام ہے اس لئے اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے۔
تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین اور منحصر بالفرد واقعہ جس نے نام نہاد اسلامی معاشروں کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کے رنگ میں رنگ دیا وہ سید الشہداءامام حسین ؓکا قیام ہے یہ قیام ان مردوں اور عورتوں دونوں کی فداکاریوں اور جانثاریوں پر مشتمل ہے جو پوری دنیا کے مسلمان مرد و زن بلکہ ہر انسان کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔ 
عاشورا کا واقعہ تمام خصوصیات کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مشتمل ہے۔یہ واقعہ صبر‘ استقامت ‘ شجاعت ‘پرہیز گاری‘ عقیدہ‘اخلاق اور طر ز زندگی سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایساواقعہ ہے جس میں چھوٹے اور بڑے‘ خواتین اور مرد سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا کردار ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عاشورہ کو وجود اور رونق عطا کرنے والے باایمان اور شجاع مجاہدین در حقیقت ماﺅں کی گودیوں کا سرمایہ تھے۔ 
 کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں حضرت زینبؓ ‘ حضرت کلثومؓ‘ حضرت سکینہ ؓ‘ اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا کی بیویوں اور ماﺅں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے مثال کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام حسینؓ کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت امام حسینؓ کا خواتین اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کتنا صائب تھا۔
کربلا کی ان مثالی خواتین نے ملوکیت کی پروردہ قوتوں کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا‘ یہاں تک کہ اپنے سہاگوں کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہ ا کے دین کی کشتی انسانیت کو ڈوبنے نہیں دیا۔واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی شید الشہد ا امام حسین ؓ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملوکیت کے مقابلے میں بیداری امت کی تحریک میں اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کی مثالی خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔
کربلا میں امام حسینؓ کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماﺅ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ زہراؓ کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہراؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ان عظیم ماﺅںکی ہمت ہی تھی کہ اسلام کی سر بلندی کے لئے ایک نے اپنی عمر بھر کی کمائی جناب علی اکبرؓ کو امام حسینؓ کے لئے عظیم مشن پرقربان کیا تو جناب ربابؓنے اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا۔ تربیت اگر ایسی ماﺅں کی ہو تو پھر فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ بنیں۔ 
 بی بی زینبؓ وہ ہستی ہیںجن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو تا قیامت اسی شدید جذبے سے یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں‘ کل ہی کا قصہ ہو۔ حضرت زینب ؓ قوت برداشت اور صبر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تھا جن کو !پ نے کمال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ سب سے بڑی ذمہ داری حضرت سجادؓ کی تیمارداری اور دشمن سے ان کی حفاظت‘ دوسری ذمہ داری ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت‘ جو بیوہ ہوچکی تھیں اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین ؓ گھر سے لے کر نکلے تھے اس کو انجام تک کردارِ اور گفتارِ زینبؓ نے پہنچایا۔ ان ہی کی سربراہی میں حضرت امام حسین ؓکے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی سازش کو بروقت بے نقاب کردیا۔
واقعہ کربلا کا ایک اور اہم کردار امیر المومنین علیؓکی بیٹی ام کلثوم بھی ہیں جنہوں نے دوران اسیری کوفہ و شام کے بازاروں میں خطبے دیئے ۔انہوںنے اپنے خطبوں میں جہاں کوفیوں اور شامیوں کی امام حسین ؓسے بے وفائی کی مذمت کی وہیں حرم رسول کی طرف نگاہ کرنے سے شدت سے منع بھی کیا۔ آپ کوفہ میں ایک خطبہ کے درمیان فرماتی ہیں: ”ترجمہ: اے کوفہ والو کیا تمہیں خدا و رسول سے شر م نہیں آتی کہ تم حرم رسول کی طرف نگاہ کر رہے ہو۔“
حضرت زینب ؓاور حضرت سکینہؓ کے بھی اس طرح کے بہت سارے خطبات اور واقعات پائے جاتے ہیں جن میں انہوں نے اپنے پردہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ 
اس کے علاوہ کاخ یزید میں حضرت زینب ؓ نے جو خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا ”اے یزید کیا یہ تیری عدالت ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ میں رہیں اور رسول زادیاں اسیر بنا کر بے مقنہ و چادر شہروں میں پھرائی جائیں اور لوگ اُن کا تماشا کریں۔“
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر خواتین حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ نہ دیتی تو امت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی بلکہ یہ کربلا میں ہی ختم ہوجاتی۔ ان خواتین نے ہی اس واقعہ کی یاد کو زندہ جاوید بنادیا۔
جگہ جگہ پر ان محترم خواتین کا احکام خداوندی کی طرف توجہ دلانا اور ان کی مکمل رعایت کرنا آج کی مسلمان خواتین کے لئے واضح درس ہے کہ یاد رکھو زمانہ کتنا بھی ترقی کیوں نہ کر جائے حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہو جائیں سماج کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے مگر یہ سختیاں اور دشواریاں کربلا کی سختیوں اور مصیبتوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔اس لئے ہمیشہ اپنے حوصلوں کا علم بلند رکھیں۔ حق کا ساتھ دیں‘ باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں تو راستے خود بخود سہل ہوجائیں گے۔


بچوں کی خودکشی‘ قصور وار کون ؟

بچوں کی خودکشی‘ قصور وار کون ؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا‘ اخبارات اور سینہ گزٹ ہر جگہ ایک ہی خبر گردش میں تھی ۔ محبت کے مارے دو بچو ں کی والدین کی جانب سے روک ٹوک پر خودکشی ۔16 سالہ نوروز نے گزشتہ روز اسکول میں اپنی ہم جماعت 15 سالہ فاطمہ بشیر عرف صبا کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔ خود کشی سے قبل دونوں نے خطوط بھی چھوڑے تھے کہ ان کے والدین ان کی شادی نہیں کریں گے اس لئے وہ اپنی مرضی سے خود کشی کر رہے ہیں۔ایس پی جمشید ٹاو ¿ن اختر فاروق کے مطابق دونوں کم سن طلبہ نے خود کشی اچانک نہیں کی بلکہ اس کے لئے انہوں نے کئی دن میں منصوبہ بندی کی۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے البتہ دونوں کے خاندان ان کی دوستی کو درست نہیں سمجھتے تھے۔فائرنگ کے لئے استعمال ہونے والے پستول کا لائسنس لڑکی کے والد کے نام پر ہے۔ہلاک ہونے والے دونوں طلبہ کے کچھ خطوط بھی سامنے آئے ہیں جس کے مطابق نوروز نے فاطمہ کو پستول لانے کا کہا ۔خط میں نوروز نے فاطمہ کو لکھا ” کل آپ گن (پستول) لانا پلیز۔“
ایک خط میں لڑکے نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا جبکہ ایک خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی محض ایک سال پر ُانی تھی۔ لڑکے کے اسکول بیگ سے ملنے والی ایک ڈرائنگ میں اُس نے اپنے اور فاطمہ کے نماز جنازہ کی منظر کشی کی ہے۔
اسکول میں موجود دیگر افراد کے مطابق جس وقت نوروز نے فائرنگ کی اس وقت اسکول میں اسمبلی جاری تھی‘اس وقت تمام طلبہ اور اساتذہ باہر تھے۔  دونوں بچوں نے تنہائی کو غنیمت جان کر اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔
دونوں بچوں کے فیس بک اکاﺅنٹس بھی ہیں ۔خودکشی سے دو روز قبل ہی نوروز نے اپنے فیس بک اکاو نٹ پر ہی لکھ دیا تھا کہ میں کل مر جاوں گا۔ البتہ نوروز کے فیس بک اکاونٹ 30 اگست کی ایک اور پوسٹ بھی موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ پہلی محبت کبھی نہیں مرتی اور دھوکہ بھی فرسٹ لو ہی دیتا ہے جبکہ فاطمہ کے فیس بک اکاﺅنٹ پر ہی محبت کی ایسی طرح سے دعوے داری کی گئی ہے۔
پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ نوروز اسماعیلی برادری سے جبکہ لڑکی کے اہلخانہ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بچوں نے مرنے سے قبل جو خطوط چھوڑے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔یہ دونوں بچے بالکل مختلف کمیونٹوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان دونوں کی عمریں ابھی اس قابل نہیں تھیں کہ ان کے والدین ان کی شادی کے حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کرتے۔
یہ واقعہ ثابت کررہا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اور ہماری نوجوان نسل کن راہوں کی مسافر ہے۔ نوروز اور فاطمہ کے فیس بک کے علاوہ ان کے خطوط بغور پڑھنے سے اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں اس حد تک لے جانے میں فلموں اور ڈراموں کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ و الدین سے بغاوت ‘ سرکشی ‘ اپنی من مانی‘ کم عمری میں جنسی تعلقات ‘ بے راہ روی کے کارناموں نے ٹی وی کے ذریعے ہر گھر میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ نوروز اور فاطمہ کے کچے ذہنوں پر یہ بات نقش ہے کہ اگر وہ اس جنم میں نہ مل سکے تو اگلے جنم میں مل جائیں گے‘ اُن کے والدین اگر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے‘ ان کے فیس اکاﺅنٹ ‘ اسکول بیگ کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید انہیں بہتر اندازمیں کچھ سمجھا پاتے لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوا۔
ویسے تو یہ ایک واقعہ ہے ‘ روزمرہ میں ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں لیکن یہ واقعہ دراصل ہمارے آج کے معاشرے کی بالکل صحیح عکاسی کررہا ہے۔ آج کے والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کے بعد خود کو ہر ذمہ داری سے مبرا سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر گھر میں لیپ ٹاپ‘ مہنگے موبائل اور کمپیوٹرز موجود ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل دے دیئے جاتے ہیں ‘ گھر میں ٹی وی اور ٹی وی پر کیبل 24 گھنٹے تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔اب بچے اس پر کیا دیکھتے ہیں اور کیا نہیں یہ والدین کا درد سر نہیں ہے۔کیبل آپریٹروں پر بھی کسی قسم کی بندش نہیں ہے ‘ وہ ہر طرح کی فلمیں بلاجھجک لگاتے ہیں جنہیں بچے بلاروک ٹوک دیکھتے ہیں۔ آج سے کچھ عرصے قبل پھر بھی والدین بچوں کو اس حوالے سے ڈانٹتے ڈپٹتے نظر آتے تھے لیکن آج یہ سلسلہ بھی موقوف ہوتا نظر آرہا ہے۔
رہی سہی کسر فیس بک نے پوری کردی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے فیس بک اکاﺅنٹس ہیں جس پر کی جانے والی پوسٹیں ہر سرحد سے ”آزاد “ ہیں ۔ آج ہمارے بچے قبل از وقت زندگی کی ان حقیقتوں سے آگاہ ہیں جن سے ہمارے والدین نے ہمیں دور رکھا۔مجھے یاد ہے کہ ہمیں دوران تعلیم خواتین کے رسالے ہاتھ میں لینے پر جھاڑ پڑجاتی تھی۔ٹی وی پر مخصوص پروگرام پیش کئے جاتے ‘ ان میں سے بھی محدود تعداد میں ڈرامے اور پروگرام دیکھنے کی ہمیں اجازت ہوا کرتی تھی۔ میں نے آج بچوں کو والدین سے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ”کوئی گندہ سین نہیں ہے ۔“
والدین کی ذمہ داری بچوں کو پیدا کرنے اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اولاد کی ”تربیت“ ان کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے زندگی میں کبھی تعلیمی اداروں کی شکل نہیں دیکھی لیکن ان کا طریقہ نشست و برخواست قابل دید اور متاثر کن نظر آتا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف والدین کی بہترین تربیت ہے۔
آج کے والدین نے تربیت کے عمل کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ فارغ اوقات میں مائیں بچوں کو بغل میں لئے اسٹار پلس کے ڈرامے یا فلمیں دیکھتی نظر آتی ہیں اور باپوں کو صرف کمانے کی فکرلاحق ہے ۔والدین کو اس بات کی چنداں فکر ہی نہیں ہے کہ بچے کیا کررہے ہیں‘ اُن کا حلقہ احباب کیا ہے‘ انہیں کیا مسائل ہیں‘ اُن کی ذہنی نشوونما کی کیا صورتحال ہے اوروہ کن راہوں کے مسافر ہیں ‘ یہ جاننے کی ماں ہو یا باپ انہیں فرصت ہی نہیں ہے۔ 
اولاد کے ساتھ دوستانے رویئے کے نام پر مائیں بچوں کے گرل یا بوائے فرینڈز کی باتیں کرلیتی ہیں تو باپ بچوں کے ناپسندیدہ افعال پر پردہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
ہونا یہ چاہئے کہ والدین کو اپنے بچوں کی ہر بات کا علم ہونا چاہئے۔ انہیں اس بات پتا ہونا چاہئے کہ ان کے بچے جن دوسرے بچوں سے ملتے ہیں وہ کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اُن کے بچوں کا اُٹھنا بیٹھا کن بچوں کے ساتھ ہے ‘ اُن کے درمیان کس قسم کی باتیں ہوتی ہیں ‘ بچے کیا سوچتے ہیں ‘ اُن کی کیا دلچسپیاں ہیں ‘ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔یاد رکھیں کہ بچوں سے دوستی کرنے کا مطلب اُن کے معمولات سے آگاہی ہے۔ 
پرانے زمانے کی ایک کہاوت ہے 
کھلاﺅ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے 
جو آج کے دور میں نہایت مصدقہ نظر آتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو زمانے بھر کی سہولیات اور آسائشیں دے کر اپنی تربیت کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ہمیں قدم قدم پر اپنے بچوں کو ان کی انگلی تھام کر چلانا ہے ‘ معاشرے کے سرد و گرم سے آگاہ کرنا ہے ‘ انہیں اچھے اور برے کی تمیز سکھانی ہے ۔
بہت سے ماں باپ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کے لئے تفریحات زندگی خود پر حرام کررکھی ہیں‘ کہیں آتے جاتے نہیں ‘ صبح سے شام تک بچوں کے لئے خوار ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن اصل میں اگر وہ دیکھیں تو ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ صبح بچے اسکول جاتے ہیں‘ واپس آنے کے بعد انہیں ٹیوشن سینٹر جانا ہوتا ہے‘ واپسی پر ٹی وی کا ساتھ ا س کے بعد بستر۔ اس درمیان میں والدین سے ان کا رابطہ کھانے پینے‘ ضروریات زندگی کی فرمائش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوپاتا ہے جوبے راہ روی کی اصل وجہ ہے۔
اپنے بچوں کے معمولات پر کڑی نظر رکھیں‘ انہیں سرزنش کرنے کے لئے ان کے مزاج کے مطابق رویہ اختیار کریں بصورت نسبتاً دیگر منفی رجحان کی مالک اس نئی نسل کی سرکشی دیکھنے کے لئے خود کو تیار رکھیں۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھیں‘ اولاد کی بدلتی ہوئی حرکات کا فوری نوٹس میں آنا کوئی مشکل بات نہیں‘ ہوسکتا ہے کہ بچے والدین کے اس فعل کو بلاوجہ کا عمل دخل قرار دیں ‘ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اپنے انداز کو کتنا مثبت رکھ کر اُن کی تربیت کا عمل مکمل کریں ۔
15اور16سالہ ان دو معصوموں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے ڈراموں اور فلموں سے زیادہ قصور ان کے والدین اور بزرگوں ہے جنہوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ ان کے بچے کن راہوں پر چل رہے ہیں۔ اگر وہ جان بھی گئے تھے تو انہیں اس مسئلے کو سمجھ داری سے حل کرنا چاہئے تھا۔ بچوں کے خطوط اور فیس بک ان کے ارادوں کی گواہ ہیں‘ اگر والدین کی تھوڑی سی بھی توجہ ہوتی تو آج یہ دو معصوم زندہ ہوتے۔
خدا کے لئے اپنی نسلوں کو بے حیائی اور آزادی کی اس شاہراہ پر چلنے سے روک دیں جس کی منزل صرف اور صرف تباہی ہے اور ایسا کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف اپنی اولاد پر بھرپور توجہ اور ان کی اچھی تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔