بچوں کی خودکشی‘ قصور وار کون ؟
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا‘ اخبارات اور سینہ گزٹ ہر جگہ ایک ہی خبر گردش میں تھی ۔ محبت کے مارے دو بچو ں کی والدین کی جانب سے روک ٹوک پر خودکشی ۔16 سالہ نوروز نے گزشتہ روز اسکول میں اپنی ہم جماعت 15 سالہ فاطمہ بشیر عرف صبا کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔ خود کشی سے قبل دونوں نے خطوط بھی چھوڑے تھے کہ ان کے والدین ان کی شادی نہیں کریں گے اس لئے وہ اپنی مرضی سے خود کشی کر رہے ہیں۔ایس پی جمشید ٹاو ¿ن اختر فاروق کے مطابق دونوں کم سن طلبہ نے خود کشی اچانک نہیں کی بلکہ اس کے لئے انہوں نے کئی دن میں منصوبہ بندی کی۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے البتہ دونوں کے خاندان ان کی دوستی کو درست نہیں سمجھتے تھے۔فائرنگ کے لئے استعمال ہونے والے پستول کا لائسنس لڑکی کے والد کے نام پر ہے۔ہلاک ہونے والے دونوں طلبہ کے کچھ خطوط بھی سامنے آئے ہیں جس کے مطابق نوروز نے فاطمہ کو پستول لانے کا کہا ۔خط میں نوروز نے فاطمہ کو لکھا ” کل آپ گن (پستول) لانا پلیز۔“
ایک خط میں لڑکے نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا جبکہ ایک خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی محض ایک سال پر ُانی تھی۔ لڑکے کے اسکول بیگ سے ملنے والی ایک ڈرائنگ میں اُس نے اپنے اور فاطمہ کے نماز جنازہ کی منظر کشی کی ہے۔
اسکول میں موجود دیگر افراد کے مطابق جس وقت نوروز نے فائرنگ کی اس وقت اسکول میں اسمبلی جاری تھی‘اس وقت تمام طلبہ اور اساتذہ باہر تھے۔ دونوں بچوں نے تنہائی کو غنیمت جان کر اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔
دونوں بچوں کے فیس بک اکاﺅنٹس بھی ہیں ۔خودکشی سے دو روز قبل ہی نوروز نے اپنے فیس بک اکاو نٹ پر ہی لکھ دیا تھا کہ میں کل مر جاوں گا۔ البتہ نوروز کے فیس بک اکاونٹ 30 اگست کی ایک اور پوسٹ بھی موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ پہلی محبت کبھی نہیں مرتی اور دھوکہ بھی فرسٹ لو ہی دیتا ہے جبکہ فاطمہ کے فیس بک اکاﺅنٹ پر ہی محبت کی ایسی طرح سے دعوے داری کی گئی ہے۔
پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ نوروز اسماعیلی برادری سے جبکہ لڑکی کے اہلخانہ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بچوں نے مرنے سے قبل جو خطوط چھوڑے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔یہ دونوں بچے بالکل مختلف کمیونٹوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان دونوں کی عمریں ابھی اس قابل نہیں تھیں کہ ان کے والدین ان کی شادی کے حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کرتے۔
یہ واقعہ ثابت کررہا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اور ہماری نوجوان نسل کن راہوں کی مسافر ہے۔ نوروز اور فاطمہ کے فیس بک کے علاوہ ان کے خطوط بغور پڑھنے سے اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں اس حد تک لے جانے میں فلموں اور ڈراموں کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ و الدین سے بغاوت ‘ سرکشی ‘ اپنی من مانی‘ کم عمری میں جنسی تعلقات ‘ بے راہ روی کے کارناموں نے ٹی وی کے ذریعے ہر گھر میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ نوروز اور فاطمہ کے کچے ذہنوں پر یہ بات نقش ہے کہ اگر وہ اس جنم میں نہ مل سکے تو اگلے جنم میں مل جائیں گے‘ اُن کے والدین اگر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے‘ ان کے فیس اکاﺅنٹ ‘ اسکول بیگ کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید انہیں بہتر اندازمیں کچھ سمجھا پاتے لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوا۔
ویسے تو یہ ایک واقعہ ہے ‘ روزمرہ میں ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں لیکن یہ واقعہ دراصل ہمارے آج کے معاشرے کی بالکل صحیح عکاسی کررہا ہے۔ آج کے والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کے بعد خود کو ہر ذمہ داری سے مبرا سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر گھر میں لیپ ٹاپ‘ مہنگے موبائل اور کمپیوٹرز موجود ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل دے دیئے جاتے ہیں ‘ گھر میں ٹی وی اور ٹی وی پر کیبل 24 گھنٹے تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔اب بچے اس پر کیا دیکھتے ہیں اور کیا نہیں یہ والدین کا درد سر نہیں ہے۔کیبل آپریٹروں پر بھی کسی قسم کی بندش نہیں ہے ‘ وہ ہر طرح کی فلمیں بلاجھجک لگاتے ہیں جنہیں بچے بلاروک ٹوک دیکھتے ہیں۔ آج سے کچھ عرصے قبل پھر بھی والدین بچوں کو اس حوالے سے ڈانٹتے ڈپٹتے نظر آتے تھے لیکن آج یہ سلسلہ بھی موقوف ہوتا نظر آرہا ہے۔
رہی سہی کسر فیس بک نے پوری کردی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے فیس بک اکاﺅنٹس ہیں جس پر کی جانے والی پوسٹیں ہر سرحد سے ”آزاد “ ہیں ۔ آج ہمارے بچے قبل از وقت زندگی کی ان حقیقتوں سے آگاہ ہیں جن سے ہمارے والدین نے ہمیں دور رکھا۔مجھے یاد ہے کہ ہمیں دوران تعلیم خواتین کے رسالے ہاتھ میں لینے پر جھاڑ پڑجاتی تھی۔ٹی وی پر مخصوص پروگرام پیش کئے جاتے ‘ ان میں سے بھی محدود تعداد میں ڈرامے اور پروگرام دیکھنے کی ہمیں اجازت ہوا کرتی تھی۔ میں نے آج بچوں کو والدین سے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ”کوئی گندہ سین نہیں ہے ۔“
والدین کی ذمہ داری بچوں کو پیدا کرنے اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اولاد کی ”تربیت“ ان کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے زندگی میں کبھی تعلیمی اداروں کی شکل نہیں دیکھی لیکن ان کا طریقہ نشست و برخواست قابل دید اور متاثر کن نظر آتا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف والدین کی بہترین تربیت ہے۔
آج کے والدین نے تربیت کے عمل کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ فارغ اوقات میں مائیں بچوں کو بغل میں لئے اسٹار پلس کے ڈرامے یا فلمیں دیکھتی نظر آتی ہیں اور باپوں کو صرف کمانے کی فکرلاحق ہے ۔والدین کو اس بات کی چنداں فکر ہی نہیں ہے کہ بچے کیا کررہے ہیں‘ اُن کا حلقہ احباب کیا ہے‘ انہیں کیا مسائل ہیں‘ اُن کی ذہنی نشوونما کی کیا صورتحال ہے اوروہ کن راہوں کے مسافر ہیں ‘ یہ جاننے کی ماں ہو یا باپ انہیں فرصت ہی نہیں ہے۔
اولاد کے ساتھ دوستانے رویئے کے نام پر مائیں بچوں کے گرل یا بوائے فرینڈز کی باتیں کرلیتی ہیں تو باپ بچوں کے ناپسندیدہ افعال پر پردہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
ہونا یہ چاہئے کہ والدین کو اپنے بچوں کی ہر بات کا علم ہونا چاہئے۔ انہیں اس بات پتا ہونا چاہئے کہ ان کے بچے جن دوسرے بچوں سے ملتے ہیں وہ کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اُن کے بچوں کا اُٹھنا بیٹھا کن بچوں کے ساتھ ہے ‘ اُن کے درمیان کس قسم کی باتیں ہوتی ہیں ‘ بچے کیا سوچتے ہیں ‘ اُن کی کیا دلچسپیاں ہیں ‘ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔یاد رکھیں کہ بچوں سے دوستی کرنے کا مطلب اُن کے معمولات سے آگاہی ہے۔
پرانے زمانے کی ایک کہاوت ہے
کھلاﺅ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے
جو آج کے دور میں نہایت مصدقہ نظر آتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو زمانے بھر کی سہولیات اور آسائشیں دے کر اپنی تربیت کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ہمیں قدم قدم پر اپنے بچوں کو ان کی انگلی تھام کر چلانا ہے ‘ معاشرے کے سرد و گرم سے آگاہ کرنا ہے ‘ انہیں اچھے اور برے کی تمیز سکھانی ہے ۔
بہت سے ماں باپ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کے لئے تفریحات زندگی خود پر حرام کررکھی ہیں‘ کہیں آتے جاتے نہیں ‘ صبح سے شام تک بچوں کے لئے خوار ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن اصل میں اگر وہ دیکھیں تو ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ صبح بچے اسکول جاتے ہیں‘ واپس آنے کے بعد انہیں ٹیوشن سینٹر جانا ہوتا ہے‘ واپسی پر ٹی وی کا ساتھ ا س کے بعد بستر۔ اس درمیان میں والدین سے ان کا رابطہ کھانے پینے‘ ضروریات زندگی کی فرمائش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوپاتا ہے جوبے راہ روی کی اصل وجہ ہے۔
اپنے بچوں کے معمولات پر کڑی نظر رکھیں‘ انہیں سرزنش کرنے کے لئے ان کے مزاج کے مطابق رویہ اختیار کریں بصورت نسبتاً دیگر منفی رجحان کی مالک اس نئی نسل کی سرکشی دیکھنے کے لئے خود کو تیار رکھیں۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھیں‘ اولاد کی بدلتی ہوئی حرکات کا فوری نوٹس میں آنا کوئی مشکل بات نہیں‘ ہوسکتا ہے کہ بچے والدین کے اس فعل کو بلاوجہ کا عمل دخل قرار دیں ‘ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اپنے انداز کو کتنا مثبت رکھ کر اُن کی تربیت کا عمل مکمل کریں ۔
15اور16سالہ ان دو معصوموں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے ڈراموں اور فلموں سے زیادہ قصور ان کے والدین اور بزرگوں ہے جنہوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ ان کے بچے کن راہوں پر چل رہے ہیں۔ اگر وہ جان بھی گئے تھے تو انہیں اس مسئلے کو سمجھ داری سے حل کرنا چاہئے تھا۔ بچوں کے خطوط اور فیس بک ان کے ارادوں کی گواہ ہیں‘ اگر والدین کی تھوڑی سی بھی توجہ ہوتی تو آج یہ دو معصوم زندہ ہوتے۔
خدا کے لئے اپنی نسلوں کو بے حیائی اور آزادی کی اس شاہراہ پر چلنے سے روک دیں جس کی منزل صرف اور صرف تباہی ہے اور ایسا کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف اپنی اولاد پر بھرپور توجہ اور ان کی اچھی تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔