Tuesday, 30 December 2014

سال گزر گیا 
شازیہ انوار 
سال 2014ء اپنی تمام اچھائیوں اور خامیوں سمیت اپنے اختتام کو پہنچا ۔سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اس سال بھی بہت سی ناکامیاں اوربہت سے مسائل سامنے آئے جن کا تذکرہ ہر پلیٹ فارم پر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ملک میں آنے والی خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں جنہیں اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سب سے خوشگوار امر پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی ہے۔ اس سال پاکستان میں کئی اہم سرمایہ کاروں نے پاکستان کی ترقی کو نظر میں رکھتے ہوئے یہاں اپنی فرنچائز ےا مزیدبرانچیں قائم کرنے کا فیصلہ کیاجب کہ مقامی سرمایہ کاربھی میدان میں نظر آئے۔ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری اس اعتبار سے بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ اس کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع سامنے آتے ہیں جو خوشحالی کی جانب ایک قدم قرار دیا جاتا ہے۔آج ہمیں ہر جانب تبدیلی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔اس تبدیلی کو مثبت رُخ پر دیکھا جائے تو ہمیں کل سے زیادہ آج اپنے ہر عمر کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی نظر آتا ہے ۔ یہی جذبہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور خود کو دیگر ممالک سے آگے لانے جدوجہد بیدار کرتا ہے ‘پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بہترین اور حیران کن کارکردگی اس کی ایک بہترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔
جذبہ حب الوطنی اگر اسی طرح سے پروان چڑھتا رہا تو ہمارے مفادات خود تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ہم اپنے اردگرد نظر آنے والے ہر شخص کی بابت سوچیں گے ‘ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کی قدر کریں گے ۔وطن کی محبت سے سرشار معاشرے میں صبر‘ برداشت‘ تحمل‘ دیانت داری‘ فراخدلی‘ رحمدلی‘ شفقت اور محبت جیسے خواص پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں بیدار ہوتے ہوئے جذبہ حب الوطنی کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی دیر نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے۔
ہر سال دسمبر کی 10تاریخ کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے ہرانسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات ہے ۔آج سے 61سال قبل انسانی حقوق (human rights)کا آفاقی منشور اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرارداد سامنے آئی جو 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی جس کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق بارے اتفاق رائے پیدا کیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور جو بلا امتیاز فراہم کیا جانا چاہئے۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ایک دوسرے کی قدر کرنے کا متقاضی ہے ۔لوگ بھوک‘ پیاس‘ غربت‘ جہالت‘ کم علمی‘ سیاسی شعور کی کمی‘ بے روزگاری اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا مناسب نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔ آئیے ہم اپنی اپنی سطح پر اپنے لوگوں کو ان مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی کوششوں سے کسی ایک انسان کی زندگی کو بھی بہتر کرپائیں تو یقینا یہ معاشرے کی بہتری کے لئے ایک اہم سنگ میل ہوگا کیوں کہ قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی دن
شازیہ انوار 

10 جنوری کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کے منشور کی تیاری کے وقت انسانی حقوق کاموضوع مختلف ممالک کے نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔ اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر جنوری 1947ءمیں انسانی حقوق کمیشن تشکیل پایاجس کے بعد1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا گیاجب کہ 1950ء سے یہ دن مستقل بنیادوں پر منایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے اعلامئے کوجاری ہوئے 60 سال کاعرصہ گزرچکا ہے جس کامشترکہ مقصد دنیا کے ہر انسان کے لئے آزادی کی نعمت اورظلم و ناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات تھا‘ تاہم انسانی حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔اس معاملے کو عالمی سطح پر انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انسانی حقوق کا تصور قدیم زمانہ سے موجود ہے اور اس کا تعلق دستاویزات سے نہیں بلکہ کسی بھی معاشرے‘ ملک یا خطے کی عمومی اخلاقیات اور ریاستی بالادستی سے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق میںزندگی کے حقوق‘ آزادی کے حقوق ‘جائیداد کے حقوق ‘بحث و مباحثہ کے حقوق ‘ کام کرنے کے حقوق ‘ووٹ کا حق ‘ الیکشن کا حق ‘پبلک افیئرزکے حقوق اورسیاسی افیئرز کے حقوق شامل ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر کس کے ‘کتنے حقوق پورے کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصو ّر بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام‘ وقار اور مساوات پر مبنی ہے لیکن افسوس کہ ہم آج ان چیزوں سے بہت د ُور ہوگئے ہیں۔ آج ہم لوگوں کو ان کے اسٹیٹس کے اعتبار سے محترم جانتے ہیں جب کہ مساوات تو خواب وخیال کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر شخص اپنے سے کم حیثیت کو انسان ہی نہیں سمجھتا ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار تسلسل کے ساتھ زوال پذیر ہیں۔ اسلام نے جس کے جو حقوق تفویض کئے ہیں اور برتری کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں‘ اگر ان پر سختی سے کاربند رہا جائے تو نہ خواتین پر پر تشدد ہوگا‘ نہ بچوں کے ساتھ مظالم ہوں گے‘ نہ غریب اپنی اولاد بیچنے پر مجبور ہوں گے او ر نہ ہی کسی کا پڑوسی بھوکا سوئے گا۔ ہر مسئلے کے حل کے لئے حکام بالا کی جانب دیکھنا عقل مندی نہیں ہے ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسائل کے حل کی راہیں نکالنا ہی احسن قدم ہوسکتا ہے۔

Wednesday, 26 March 2014

خودسوزی ‘ آخر کب تک ؟


رواں ماہ کی 8 تاریخ کو دنیا بھرمیں خواتین کا عالمی دن نہایت اہتمام سے منایا گیا۔ اسی ماہ میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی 18سالہ آمنہ نے انصاف نہ ملنے پر خود کو شعلوں کے حوالے کردیا۔ 5جنوری کو زیادتی کا نشانہ بننے والی آمنہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پولیس نے تفتیش کے بعد اس کے گناہگاروں کو بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا ہے تو اس نے تھانے پہنچ کر خود کو آگ لگالی ‘لڑکی کو تشویشناک حالت میں نشتر اسپتال ملتان منتقل کیا گیا‘ جہاں وہ صبح زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔اسی طرح سے 2 فروری کو چینوٹ کے علاقے موضع کلس کے کھیتوں میں کام کے دوران 22 سالہ محنت کش لڑکی کو تین بااثر زمینداروں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ عدالتی حکم پر اس کا میڈیکل کرانے پر زیادتی ثابت ہوئی ‘ عدالتی حکم پر ملزمان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کئے گئے لیکن پولیس نے ان بااثر ملزمان کو گرفتار نہ کیا۔ پولیس کے اس رویئے کے خلاف لڑکی نے عدالت کی سامنے خودسوزی کی کوشش کی 
تاہم وکلاء نے آگ بجھا کر اس کی جان بچالی۔


میں نے زیر نظر سطور میں صرف دو واقعات کا تذکرہ کیا ہے جب کہ اخبارات اس طرح کے سانحوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وقوعہ میں سے کئی تو رپورٹ ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر کاغذوں پر نہیں لائے جاتے ‘ جو منظر عام پر آجاتے ہیں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ معاشرہ جتنی بھی ترقی کرجائے خواتین کی صورتحال بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔پنجاب ہو یا سندھ ملک کے ہر حصے میں جنسی جرائم میں تیزی سے تشویشناک اضافہ ہورہا ہے ۔ اس لپیٹ میں 3 سالہ بچی سے لے کر ضعیف العمر خواتین تک آجاتی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ مجرمان آزادی سے دندناتے پھرتے ہیں۔جس گھر پر یہ آفت آتی ہے صرف وہ اس تکلیف سے گزرتا ہے اور یہ تکلیف ساری عمر کی ہوتی ہے شاید اسی لئے اب ایسی بچیاں 
خودسوزی کو اپنے لئے زیادہ بہتر راستہ سمجھتی ہیں۔


مظفر گڑھ میں ہونے والا واقعہ 2002 میں مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کی یاد تازہ کرتا ہے اوراجتماعی زیادتی کے یہ واقعات ایک دوسرے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ چلیں دیہات میں ہونے والے ایسے ظالمانہ فیصلے اور خواتین کی عصمت دری تو ان دیہاتیوں کی ظالمانہ اور جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے لیکن بڑے شہروں میں خواتین کو متعدد طریقوں سے ہراساں کرنے والوں کو کیا کہا جائے جو ایک سڑک پر چلتی عورت‘ اسکول یا کالج جاتی طالبہ‘ دفتر میں کام کرنے والی لڑکی یا بازار میں شاپنگ کرتی خاتون کو اپنی غلیظ نظروں‘ واہیات جملوں اور وحشیانہ انداز سے ہراساں کرتے ہیں۔ کیا ان مرد نما بھیڑیوں کی نظر میں عورت صرف ایک شکار کے قابل خرگوش ہے جسے وہ اپنی نظروں سے ہی زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی ماں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسے ہی کسی جنسی بھیڑیے کی 
نظروں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔


یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ عورت چاہے کسی بھی مقام ‘ جگہ یا ملک میں ہو‘ اسے ان جنسی درندوں سے نجات نہیں مل سکتی ‘البتہ اس کی سطح مختلف ہوسکتی ہیں۔ معاشرے میں روا ہر قسم کی ہوس‘ بدلے‘ زیادتی اور کوتاہی کا خسارہ عورت کو ہی بھگتنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر عورت کو کئی صدیوں سے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن آخر کب تک ؟ 
وہ پاکستان جہاں عورت دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی‘ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ نے بھی میدان سیاست میں خوب نام کمایا اور رعنا لیاقت علی گورنر سندھ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائزکیا گیا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا‘ لاالہ الا محمد رسول اللہ“ کے نعرے پر حاصل کئے گئے ۔اس ملک میں صنف نازک اپنے بنیادی حقوق کے معاملے میں ہمیشہ نظر انداز کی گئی ھے۔ اکثر دیہاتی نظام میں بسنے والی عورت آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتاہے۔ ونی اور کاروکاری جیسی قبیح رسوم‘ گینگ ریپ زنا بالجبر‘ جبری مشقت‘ مارپیٹ‘ بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی ‘عزت کے نام پر قتل‘ وراثت سے محرومی اور سوابتیس روپے حق مہر جیسے غیر عادلانہ ‘ غیر منصفانہ ‘ ظالمانہ اقدامات اور جاہلانہ رسم و رواج سے اسلام اور پاکستان کی علمی سطح پر جنگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
اس وقت ضرورت  ہے تو بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے ‘عورتوں میں علمی شعور بیدار کرنے اور انہیں معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ۔ سماج میں بڑھتی ہوئی بے گانگی اور اجنبیت کا ایک سبب عورت کے لیے منفی سوچ ہے جسے ختم کرنے اور عورت کو اس کے مرتبہ کے مطابق عزت دینے ہی سے عورتوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتی میں کمی کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

Monday, 3 March 2014

طالبان یا پھر کوئی اور


ابھی کچھ ہی دن پہلے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار میڈیا پر خم ٹھوک کر یہ دعوے داری کررہے تھے کہ اسلام آباد بالکل محفوظ ہے ۔ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد محفوظ شہر ہے جہاں خطرے کا امکان کم ہوا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد کو درپیش تمام تر دہشت گردانہ خطرات کے سدباب کے لئے اپنی بہترین کوشش کی ہے اور اس کے نتیجہ میں جون 2013 ء”صرف ایک دہشت گردانہ واقعہ“ ہوا ہے اور وہ بھی دارالحکومت کے مضافات میں۔ وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ میں اعادہ کیا تھا کہ دارالحکومت ممنوعہ گروپوں جیسے القاعدہ ،تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے ”سلیپر سلس“ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت جوکھم میں ہے لیکن وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد محفوظ ہے اور سارے ملک کی سلامتی حکومت کی کوشش ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر حساس اداروں نے سیکیورٹی الرٹ جاری کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں ۔ابھی ان باتوں کی بازگشت جاری ہی تھی کہ آج صبح اسلام آباد ایف 8کچہری میں دو خود کش حملے کی خبر ہر چینل پر وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کا منہ چڑاتے نظر آرہی تھی۔خود کش حملے میں سیشن جج اور 4 وکلاءسمیت 12 افراد جاں بحق‘ جب کہ 30 افراد زخمی ہوئے ہیں‘ جن میں کئی کی حالت نازک ہے‘ زخمی ہونے والوں میں وکلائ‘ سائلین اور راہ گیر بھی شامل ہیں‘ تاہم ابھی تک کسی گروپ کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلع کچہری میں خود کش حملے اور فائرنگ کے واقعے پر ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونےوالے ہنگامی اجلاس میں اسلام آباد ضلع کچہری واقعے کے محرکات اور آئندہ کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے گا‘وزیراعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے عوام کی حفاظت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھاجسے ضلع کچہری میں پیش آنے والے واقعے نے غلط قرار دے دیا ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کے بارے میں تیسری قوت کارفرما ہے‘ دھماکے کون کررہا ہے طالبان بھی اس کانوٹس لیں۔

 غور طلب بات یہ ہے کہ خود کش حملوں کا واقعہ ایک ایسے لمحے میں سامنے آیا ہے‘جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور اس کے ماتحت ذیلی دہشت گرد تنظیموں نے بھی جنگ بندی پر غیر مشروط آمادگی ظاہر کی۔اب اگر ان خودکش حملوں کے پیچھے حسب وعدہ طالبان نہیں ہیں تو پھر کون ہے جو اتنے منظم اور بے خوف انداز میں پاکستان کے دل پر حملہ کرگیا۔

”پاکستان دہشت گرد ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں ہے “یہ روایتی جملہ نہیں بلکہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے جس پر بیان بازی کا شوق پورا کرنا انتہائی غلط ہے۔ صرف بیان داغنا کافی نہیں بلکہ ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتہائی عملی اقدامات کرنے چاہئے بصورت دیگر نئے اور پرانے طالبان سمیت‘ تیسری ‘ چوتھی اور پانچوں ملک دشمن قوت سامنے آتی رہے گی کیوں کہ ہم وطن عزیز کی دفاع کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے نظر نہیں آرہے




Thursday, 27 February 2014

یہ مانگنے والے

میں زینب مارکیٹ کے باہر کھڑی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی‘ ابھی بہ مشکل 2منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ دو فقیر اپنا سوال دراز کرنے کے بعد اپنا مقصد حاصل کرکے جاچکے تھے لیکن اس کے بعد اگلے پندرہ منٹوں میں کئی بھکاریوں نے میرا وہاں کھڑا رہنا محال کردیا‘سخت گرمی میں ایسے میں مانگنے والوں کی قطاروں نے جیسے میرے اعصاب شکستہ کردیئے ۔ میں نے ایسے میں کسی کو سخت سُست کہا ‘تو کسی کو جھڑک دیا ‘ جونہی مجھے اپنی گاڑی نظر آئی ‘میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس جانب بڑھ گئی ۔

ویسے تو شہر کراچی میںگداگری عام دنوں میں بھی ایک نہایت کامیاب بزنس ہے‘ شاید اسی وجہ سے پیشے سے منسلک لوگ کوئی دوسرا کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ شہر میں بسنے والے تو رہے ایک جانب جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان‘ راجن پور‘ خانپور کٹورہ‘ صادق آباد اور بہاولپور سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں گداگر کراچی میں موجود ہیں ۔ان گداگروں میں بوڑھے‘ جوان اور خواتین کے علاوہ جسمانی معذور بچوں بھی ہوتے ہیں جو شہر کے سگنل‘ چوراہے ‘ہوٹل ‘ ریسٹورنٹس‘ مساجد‘مارکیٹ اور شاپنگ سینٹروں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ان گداگروں کاکہنا ہے کہ کراچی آنے کا مقصد زیادہ پیسے حاصل کرنا ہے ۔یہاں کے خوشحال لوگوں سے انہیں زندگی گزارنے کے لئے مناسب رقم اور اشیائے ضروریہ مل جاتی ہیں ۔

معاشی بدحالی کے باوجود کراچی کے گداگر ایک عام محنت کش سے کئی گنا زیادہ پیسے کمالیتے ہیں‘یہاں پر عام دنوں میں صحت مند گداگر کی آمدنی 300 سے 400 روزانہ ہے جب کہ معذور گداگر 500 سے ہزار روپے روزانہ کما لیتے ہیں۔رمضان کے مہینے میں کروڑوں روپے زکواة و خیرات کی مد میں نکالے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں گداگروں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

سنا ہے کہ پیشہ ور گداگروں کےلئے 3 سے 5 سال قید کی سزا اور 500 سے 5000 روپے تک جرمانہ ہے لیکن کم از کم میں نے تو آج تک کسی گداگر کو سزا ہوتے دیکھا نہ سنا ۔ویسے بھی میرا ناقص خیال یہ ہے کہ یہ منظم گداگر اگر کبھی کسی وجہ سے گرفتار ہوتے بھی ہوں گے تو وہ عام شہری کی نسبت کچھ معاشی استحکام اور کچھ ججوں کی رحم دلی کی وجہ سے جلدہی عدالتوں سے ضمانت حاصل کرلیتے ہوں گے جسکے نتیجے میں یہ گداگر دوبارہ سڑکوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال سے پیشہ ورگداگر بھی پریشان ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ رات کو اپنے بچوں کے ہمراہ شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر سوتے ہیں۔ جب کبھی شہر کے حالات خراب ہوتے ہیں تو فائرنگ کی آوازیں سن کر ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں لیکن شہر میں خراب حالات کے باوجود سڑکوں پر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔

بھیک مانگنے والوں کو کسی کا ڈر خوف نہیں ہے ۔ سٹی وارڈنز ‘ شہری‘ ٹاﺅن حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک مانگی جاتی ہے بلکہ پولیس والے خود فقیروں کو بھیک دیتے نظر آتے ہیں ۔بعض افراد اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض پولیس والے خود گداگری کے ” کاروبار“ میں برابر کے شریک ہیں۔اس بات کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ مختلف چوکوں‘ مارکیٹوں اور بینکوں میں پولیس اہلکار وں کی بڑی تعداد تعینات ہوتی ہے جو چاہیں تو ان بھکاریوں اور گداگروں کے خلاف جوشریف لوگوں کو تنگ کرتے ہیں‘ ٹریفک میں خلل ڈالتے اور جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ‘ کے خلاف سخت کارروائی کرسکتے ہیں مگر سرکاری اہلکاروں کو چھوٹی گاڑیوں‘ موٹرسائیکل سواروں اور خوش طبعی کے عادی نوجوانوں کو گھیر کر نذرانہ وصول کرنے سے فرصت ملے تو وہ اس طرف توجہ دیں اور خلق خدا کو عذاب سے چھٹکارا دلائیں۔ پیشہ ور گروہ ان اہلکاروں کو ”ماہانہ “دیتے ہیں یا ”دیگر“ مصروفیات کی بناءپر یہ اہلکار ان کے تعرض نہیں کرتے خدا بہتر جانتا ہے ۔

اقوام متحدہ کے مطابق 18کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جب کہ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نے فرمایا کہ ہماری60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ گو کہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کےلئے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے اسکے باوجود بھیک مانگتے ہوئے افراد کی تعداد خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے‘ غربت کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔حکومتی نااہلی کے سبب گداگری ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جسے مافیا کنٹرول کرتی ہے-مختلف جگہوں اور علاقوں میں یہ مافیا اپنے خاص گداگر وںکو روزانہ‘ ہفتہ وار یا ماہانہ کی بنیاد پر تعینات کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو مقامات گداگری کے انتہائی منافع بخش قرار دیئے جاتے ہیں اُن کا باقاعدہ سودا کیا جاتا ہے اور انکے حصول کےلئے بااثر ٹھیکیداروں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ”اپنے گداگروں“سے ان مقامات پر بھیک منگواتے ہیں۔ ان علاقوں میں بولٹن مارکیٹ‘ صدر‘ طارق روڈ‘ ڈیفنس‘ کلفٹن‘ حیدری‘ کریم آباد ‘گلف ‘ زینب مارکیٹ ‘ صدر ‘ پاپوش نگر ‘زمزمہ سمیت کے علاقے شامل ہیں۔

جس طرح سے ہر پیشے میں اچھے اور بر ُے لوگ موجود ہیں اسی طرح سے گداگری کے پیشے وابستہ افراد کی اگر اکثریت غلط ہے تو بہت سے مستحق بھی ہیں لیکن افسوس کہ آج اُن میں تفریق ختم ہوکر رہ گئی ہے۔گداگری ایک معاشرتی روگ اور قوم کی بدحالی کی علامت ہے ۔ ایک غیرت مند اور خوددار معاشرے کو ترجیحی بنیادوں پر اس کا قلع قمع کرنا چاہئے ۔لاہور ہائی کورٹ نے چند سال قبل پیشہ وارانہ گداگری کی حوصلہ شکنی کے لئے حکم جاری کرتے ہوئے مفلس اور نادار افراد کی مالی معاونت کی بات کی تھی ۔ اگر اسی طرز پر حکومتی سطح پر کام کرتے ہوئے حقیقی غریبوں کو تلاش کرکے ان کی معاونت کی جائے اور پیشہ ور گداگروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو معاشرہ اس لعنت سے تیزی سے پاک ہوسکتا ہے۔


 


Thursday, 13 February 2014

قانون کے محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟

Wednesday, 12 February 2014

کتب بین کہاں سے لائیں ؟

رنگ برنگی اشیاءسے سجی ہوئی دکان پر ایک نوجوان بہت دیر سے ایک کتاب کی جانب متوجہ تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت کا احساس ہوا ‘ میں بلاارادہ اس کی جانب دیکھے گئی اور ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ابھی ہماری نوجوان نسل میں کتابوں کا شوق باقی ہے ۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور اس سے کہا ۔”یہ تم کتاب میں کیا تلاش کررہے ہو ؟“
نوجوان نے جواب دیا۔” میں اس اشتہار کو دیکھ رہا تھا‘ یار کتنی خوبصورت ہیوی بائیک ہے ناں۔“
دوسرے نے تائید میں سر ہلایا اور دونوں کتاب رکھ کر اپنی راہ کو ہولئے اور میں سوچتی رہ گئی کہ آج ہماری نوجوان نسل کی کتابوں میں دلچسپی صرف اشتہارات دیکھنے کی حد تک رہ گئی ہے ۔؟
”کتاب بہترین دوست ہوتی ہے “یہ مقولہ ہر خاص و عام نے سنا ہوگا لیکن آج ہماری نسل اس دوست سے محروم ہوچکی ہے۔جیسے جیسے عام آدمی کی سستی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے کتابیں اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہیں۔کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ہیں۔تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ہے ۔خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے۔
اب سے ایک نسل قبل تک کتب بینی کا شوق بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اسی وجہ سے آج بھی بہت سے گھرانوں میں ‘بطور خاص جہاں بزرگ موجود ہیں کتابیں شیلفوں پر سجی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن نئی نسل کی ان میں دلچسپی نہیں ہے۔ اگر کوئی بزرگ نوجوانوں کو کتابوں کی اہمیت سے روشناس کرانا بھی چاہے تو بے فیض لگتا ہے کیوں کہ آج کے نوجوان کی بورڈ پر چند حرف لکھ کر پوری دنیا تک تصرف حاصل کرلیتے ہیں انکے نزدیک کسی ایک موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کو لے کر بیٹھنا وقت کا زیاں ہے۔ بقول ایک نوجوان کے ” اتنے وقت میں ہم کمپیوٹر پر نجانے کیا کچھ کرلیں گے۔“
حقیقت یہ ہے کہ آج کے بچوں اور نوجوانوں کو وقت گزاری کےلئے بہت کچھ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک بچے بھاگ دوڑ کے کھیلوں کےساتھ ساتھ کتب بینی کے بھی شائق ہوا کرتے تھے۔ عمران سیریز ‘ انسپکٹر جمشید کی کہانیاںسمیت متعدد جرائد بچوں کی دلچسپی کے پیش نظر شائع کئے جاتے تھے۔ اخبارات میں بھی بچوں کےلئے کہانیوں اور لطائف پر مشتمل صفحات نہایت اہتمام سے شائع ہوتے اور بچوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کا نام ان صفحات کی زینت بنے لیکن گزرتے وقت کےساتھ جیسے سب ہی کچھ بدل کر رکھ گیا ہے۔ اب بچے اخبارات میں شائع ہونے والے ان صفحات کو دیکھتے بھی شاید ہی ہیں چہ جائیکہ وہ کہانیاں لکھیں ‘جب کہ نوجوانوں کے مشاغل کی تو بات ہی کیا ہے ان کی زندگی کا محور کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اورموبائل بن کر رہ گئے ہیں۔
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بڑا پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے اورخود آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کاادراک پیدا کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں کتب بینی معدوم ہوتی نظر آرہی ہے جس کے مستقبل میں نہایت مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ تعلیمی اداروں میں کم و بیش لائبریریاں زیر استعمال رہتی ہیں مگر ان کا استفادہ صرف نصابی سرگرمیوں کی حد تک کیا جاتا ہے جبکہ نصاب کی حدود سے آگے کتابوں کا مطالعہ طلباءاپنے لئے مصیبت سمجھتے ہیں۔ٹیکنالوجی کی یلغار کے علاوہ مطالعے میں کمی کی دیگر وجوہات میں کتابوں کا مہنگا ہونا ‘قوم میں سہل پسندی اور تفریحاتی رجحان کا بڑھنا بھی ہیں۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں جبکہ73فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں 42فی صد کتب بین مذہبی‘32فی صد عام معلومات یا جنرل نالج‘26فی صد فکشن اور  07فی صد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ 
کتابوں سے دوستی میں اضافہ‘ اشاعتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور کاپی رائٹس کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا نے کے لئے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اپیل پر 1995ء سے ہر سال باقاعدگی سے کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند سالوں سے حکومتی سرپرستی میں 22 اپریل کو کتاب کا قومی دن کا اہتمام کرتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی طرف سے سیمینارز‘ کانفرنسیں‘ ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں جبکہ اہم شاہراہوں اور پارکوں میں بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں مگر سال رواں میں پیر دباتے ہوئے گزر گیا اور اس حوالے سے پاکستان کے ایک درجن سے زائد نامور ادیبوں‘ محققوں‘ دانشوروں اور پبلشرز کی محافل کہیں دیکھنے یا سننے تک میں نہیں آئیںجس سے حکومت کے کتب بینی کے فروغ کے لئے سنجیدگی کی حد کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کتب بینی کی عادت کو نئی نسل میں بیدار کئے بغیر قوم کے مستقبل کوروشن نہیں بنایا جاسکتا‘ اس کے لئے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے جیسے کہ اسکولوں میں ریڈرز کلب کا قیام تا کہ طلباءو طالبات میں کتابوں سے رغبت پیدا کیا جاسکے۔ کتب بینی کے کلچر کو ترقی دینے کیلئے معاشرے کے تمام طبقوں کو متحرک ہونا ہوگا‘ کتاب پڑھنے کا شوق بچوں میں کم عمری میں ہی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس کےلئے اسکولوں میں لائبریری کے نظام کو جامع اور کثیر الجہت بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کےلئے والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر والدین کی نقل کرتے ہیں‘ اگر والدین گھر میں کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔
کتاب علم کا منبع اور افکار کا خزانہ ہے۔ کتب بینی کا شوق ذہن کو تازگی‘ روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتاہے۔ نسل نو کا کتاب دوستی کی طرف راغب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ طالب علموں کو سماجی اور تہذیبی زندگی کو سمجھنے کیلئے نصابی کتب سے آگے بڑھ کر فکر وآگہی کی پیامبر کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا‘ کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی اور برتری کا جائزہ لینے کا آسان نسخہ یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس قوم کے افراد کا علم اور کتاب سے کیا تعلق رہا ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کواس قوم کے حال کا صحیح علم ہو جائے گا بلکہ اس کے ماضی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اورآپ اس کے مستقبل کاقیاس بھی کر لیں گے جو اقوام علم اور کتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کی عادت اپنا لیتی ہیں وہ زندگی میں فتح و ظفر کی حقدار ہوتی ہیں۔




اسیر زادی جیسے ڈرامے پاکستان کے مثبت تاثر

 کو اُبھارتے ہیں   



 

عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے نجی چینلوں پر جو ڈرامے دکھائے جارہے ہیں ان میں سوائے عشق و محبت کے دوسری کوئی بات نہیں کی جارہی جب کہ کئی نجی چینل معاشرتی مسائل پر مبنی ایسے ڈرامے بھی پیش کررہے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ان ہی میں ایک ڈرامہ ”اسیر زادی “بھی ہے ۔ پہلی ہی قسط سے عوام میں مقبول ہونے والی اس ڈرامہ سیریل نے24ہفتوں تک ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ گزشتہ دنوں ختم ہونے والی ڈرامہ سیریل”اسیرزادی “نے اپنی کہانی اور موضوع کی وجہ سے عوام میں انتہائی مقبولیت حاصل کی۔اسیرزادی معاشرے کے اُس طبقے کی کہانی ہے جو روایات کی ڈور میں جکڑا ہوا ہے۔ اس طبقے میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مرد کی پہلی اور دوسری بیوی سے بچے نہیں ہوتے‘ اس لئے خاندان کا ہر مرد تیسری شادی کرتا ہے تاکہ اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔یہ خاندان’ بڑے پیر‘ کا ہے جو خاندان کے سربراہ ہیں۔ ا ن کا وارث شہاب بھی ا ن کی تیسری بیوی سے ہے جسے سب ’بڑی سرکاری‘ کہتے ہیں‘ گھر میں اسی کی حکمرانی ہے۔ شہاب کی بھی ایک شادی ہوچکی ہے لیکن اولاد کے لئے اسے دوسری شادی کرنا پڑتی ہے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ دوسری بیوی سے بھی اس کے کوئی اولاد نہیں ہوگی لیکن قسمت کے کھیل نرالے ہیں۔ اس کی دوسری بیوی ماں بن جاتی ہے جو کم از کم اس خاندان کے لئے انہونی ہے۔بڑی سرکار جو مزاجاً سخت اور سازشی عورت ہے ان سب معاملات پر غور کرتی ہے اور جب معاملے کی تہہ میں پہنچتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ سارا کیا دھرا بڑے پیر صاحب کا ہے جس کے بعد وہ مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اس کا غرور خاک میں مل جاتا ہے ‘ وہ اپنی بہو اور سوتنوں کے ساتھ رویہ بدلتی ہے اور اس کا بدلا ہوا رویہ اس خاندان میں انقلاب لانے کا سبب بن جاتا ہے۔کہانی میں ایک جانب پاکستانی معاشرے میں عورت پر روا ظلم و ستم ‘ اس کا معاشرے میں کمزور مقام کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب اسی معاشرے کی اپنے ارادے مضبوط عورت کا روپ بھی دکھایا گیا ہے ۔اسیر زادی تحریر مصطفی آفریدی کی جب کہاس کی ہدایات دی ہیں احتشام الدین نے۔ اسیر زادی کی پیش کش مومنہ د ±رید کی ہے جبکہ اداکاروں میں شامل ہیں ثانیہ سعید‘ فرح شاہ‘ سکینہ سموں‘ سلمان شاہد‘ نور حسن‘ عینی جعفری‘ الیشبہ محبوب‘ ثانیہ شمشاد اور یاسر۔
امریکہ میں ٹیکساس کے شہر سٹی آف پیرس کے میئر نے ہم کے معروف ڈرامہ سیریل ”اسیر زادی “کی اہمیت کے پیش نظر اس کے حوالے سے تقریبات کاایک پورا ہفتہ منایا جس کی وجہ سے ڈرامہ سیریل نے عالمی سطح پر مقبولیت اختیار کرلی۔ اسیر زادی پاکستانی معاشرے کا عکاس ہے‘ جبکہ اسیر زادی ہفتہ منانے کا مقصد امریکی معاشرے میں مختلف ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔ اس حوالے سے شہر کے میئر نے باضاطہ طور پر ایک خط جاری کیا ہے جس کے مطابق اسیر زادی ہفتے کا آغاز 20جنوری 2014ءسے کیا جاچکا ہے۔ واضح رہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی ڈرامے کو اس منفرد اعزاز سے نوازا گیا ۔ میئر کے خط میں اداکاروں کی اعلیٰ کارکردگی کی پذیرائی کے علاوہ مصنف کی عمدہ تحریر کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ ڈرامہ سیریل اسیر زادی امریکی اور پاکستانی معاشرے میں فرق اور مشابہت کو عمدگی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ہم کی صدر سلطانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم سٹی آف پیرس کے مئیر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ڈرامہ سیریل اسیر زادی کو پاکستانی ثقافت کی بہترین عکاسی کرنے پر اس منفرد اعزاز سے نوازا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں اسیر زادی ہفتے کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نیٹ ورک عالمی معیار کی تفریح فراہم کر رہا ہے جس کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے۔